1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متنازعہ پریس کانفرنس کے قانونی اور آئینی نکات پر بحث

28 اکتوبر 2022

ڈی جی آئی ایس پی آر بابر افتخار اور آئی ایس آئی چیف جنرل ندیم انجم کی پریس کانفرنس کی گونج آج بھی ملک کے کئی سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں میں سُنائی دے رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4IoU6
Pakistan |  General Babar Iftikhar
تصویر: Aamir Qureshi/AFP

 عمران خان نے اس پریس کانفرنس کو سیاسی قرار دیا جبکہ ملک کے کچھ سیاسی  حلقے بھی منتخب حکومت کی موجودگی میں فوجی افسران کی پریس کانفرنس پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ کچھ ناقدین اس پریس کانفرنس کی قانونی اور آئینی حیثیت پر بھی سوال کر رہے ہیں۔ کچھ اسے قانون اور رولز کے مطابق قرار دے رہے ہیں اور کچھ کے خیال میں یہ رولز اور آئین کے خلاف ہے۔

رولز کے خلاف

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستانی فوج کے حلف میں آئین کی پاسداری کا ذکر موجود ہے اور یہ کہ آئین فوج کو سیاسی معاملات پر بات چیت کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ 

سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر کا کہنا ہے کہ کل کی پریس کانفرنس نے سیاسی اور جمہوری عمل کو کمزور کیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ پریس کانفرنس غیرآئینی اور رولز اور حلف کے خلاف تھی۔ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کی وضاحت کرنے کے لیے اس طرح سامنے آنا اور پریس کانفرنس کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ غیر آئینی طور پر سیاسی کردار ادا کر رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی طرف اس پر سوال نہ اٹھانا، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ انہوں نے اس غیر آئینی سیاسی کردار کو تسلیم کرلیا ہے۔‘‘

تحقیقات کے مکمل ہونے سے قبل آئی ایس آئی پر الزام لگانا قابل افسوس بات ہے: ڈی جی آئی ایس پی آر

 بشریٰ گوہر نے مطالبہ کیا کہ ایوان کی دفاعی اسٹینڈنگ کمیٹی وزارت دفاع سے اس حوالے سے وضاحت طلب کرے اور ان سے پوچھے کہ انہوں نے باقاعدہ اس حوالے سے کوئی اجازت دی تھی  یا نہیں۔ '' اس طرح پریس کانفرنس کرنا متوازی حکومت قائم کرنے کے مترادف ہے۔‘‘

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک قانونی ماہر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ڈی جی آئی ایس آئی ایسی کسی پریس کانفرنس میں بیٹھ نہیں سکتا اور نہ ہی سیاسی سوالات کے جوابات دے سکتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر پریس کانفرنس کر سکتا ہے لیکن وہ فوج کے حوالے سے پیشہ وارانہ بات چیت کر سکتا ہے۔ سیاسی بات چیت وہ بھی نہیں کر سکتا۔‘‘

اس قانونی ماہر کے مطابق اگر فوج پر الزامات لگائے جاتے ہیں یا آئی ایس آئی پر دشنام طرازی کی جاتی ہے تو پھر وزیر اطلاعات یا حکومت کو جواب دینا ہوتا ہے۔ ''آئین کے مطابق کوئی فوجی افسر ان الزامات کے جوابات نہیں دے سکتا بلکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جوابات دے۔‘‘

فوجی افسران کی پریس کانفرنس تبصروں اور تجزیوں کی زد میں

قانونی رائے

تاہم قانونی ماہرین بشریٰ گوہر اور کچھ دوسرے ماہرین کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ آئین میں ایسی کوئی بات نہیں کہ کسی ادارے کے سربراہ کو اس طرح پریس کانفرنس کرنے سے روکا جائے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' آئین کی آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتی ہے اور اظہار رائے کی یہ آزادی تمام شہریوں کے لیے ہے، بشمول فوجی افسران کے۔ اگر کوئی شخص کسی  ادارے کا  سربراہ ہے، تو وہ اپنے ڈپارٹمنٹ کے حوالے سے کوئی وضاحت عوام کے سامنے پریس کانفرنس کے ذریعے پیش کر سکتا ہے۔‘‘

سابق سیکریٹری پلاننگ کمیشن فضل اللہ قریشی لطیف آفریدی کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں۔  سرکاری محکموں میں اس کے طریقہ کار کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہر محکمے کا ایک ترجمان ہوتا ہے، جس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ پریس ریلیز، میڈیا سے بات چیت اور پریس کانفرنسسیز کے انتظامات یا کسی بھی طرح کی وضاحت جاری کریں کرے۔ عموماً یہ ترجمان جوائنٹ سیکریٹری لیول کا ہوتا ہے۔ وزارت دفاع کے حوالے سے آئی ایس پی آر مجاز ادارہ ہے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان کے ساتھ وزارت دفاع کا کوئی اور افسر بھی بیٹھ سکتا ہے۔ کیونکہ الزامات آئی ایس آئی پر لگائے جارہے تھے، تو قانونی طور پر آئی ایس پی آر کے ترجمان کے ساتھ آئی ایس آئی چیف کا بیٹھنا میری نظر میں قوانین یا رولز کے خلاف نہیں ہے۔‘‘

پاکستان میں سول ملٹری تعلقات ایک بار پھر تناؤ کا شکار؟

انوکھی بات نہیں

فضل اللہ قریشی کے مطابق بعض معاملات میں ہمیں روایات کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ ''امریکہ میں سی آئی اے چیف اور مختلف جنرلز میڈیا سے بات چیت کرتے ہیں اور اپنے محکموں کے حوالے سے وضاحت دیتے ہیں یا اطلاعات فراہم کرتے ہیں، تو میرے خیال میں اس میں کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے۔

 فوجی اور ملکی قوانین پر گہری نظر رکھنے والے راولپنڈی کے  بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد وا صف خان کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر معاملے میں سیکریٹری دفاع سے اجازت لی جائے۔ ''کیونکہ حکومت نے پہلے ہی آئی ایس پی آر کو ایک مجاز ادارہ بنا یا  ہے، تو وہ اپنی طرف سے پریس کانفرنس منعقد کر سکتے ہیں اور متعلقہ حکام کی اجازت اور مرضی سے وہ کسی دوسرے افسر کو بھی اپنے ساتھ بٹھا سکتے ہیں۔‘‘

 اجازت ضروری ہے

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سابق بیورو کریٹ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ''عموماً سویلین محکموں میں یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ کو کسی اخبار میں کچھ لکھنا ہو یا میڈیا سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق رکھنا ہو، تو آپ کو متعلقہ محکمے کے سیکریٹری سے اجازت لینی ہوتی ہے۔ یہ اجازت تحریری ہوتی ہے لیکن کسی ہنگامی صورت حال میں یہ اجازت زبانی بھی ہو سکتی ہے۔‘‘