1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تحقیقات کے مکمل ہونے سے قبل آئی ایس آئی پر الزام لگانا قابل افسوس بات ہے: ڈی جی آئی ایس پی آر

شکور رحیم/ اسلام آباد20 اپریل 2014

حامد میر کے چھوٹے بھائی عامر میر نے جیو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اپنے بھائی پر حملے کا ذمہ دار ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈی جی لفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام اور چند دیگر افسران کو قرار دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1BlP1
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے سینیئر صحافی حامد میرپر کراچی میں کیے گئے قاتلانہ حملے کی تحقیقات تین رکنی عدالتی کمشن سے کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اتوار کو وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہوالے بیان کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے کمیشن کی تشکیل کے لیے درخواست کی جائے گی۔ اس بیان کے مطابق حامد میر پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات میں مدد کرنے والےکو ایک کروڑ روپے کا انعام بھی دیا جائے گا۔ دوسری جانب حامد میر پر قاتلانہ حملے کے خلاف ملک بھر کی صحافتی تنطیموں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔

اتوار کے روز اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام ایک مظاہرے کے انعقاد ہوا۔ مظاہرے میں شریک صحافیوں نے حکومت مخالف اور آزادی صحافت اور حامد میر کے حق میں نعرے بازی کی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ حکومت کمشن بنانے کے بجائے فوری طور پر حملہ آوروں کو گرفتار کرے۔ مظاہرے میں شریک جیو نیوز اسلام آباد کے بیورو چیف رانا جواد نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی کمان محض طفل تسلیوں کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا، "پہلے ہم نے ان کمانز کی جو تاریخ دیکھی ہے اس میں بات کچھ آگے نہیں نکلتی۔ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ بھلے آپ کمشن بنائیں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائیں صرف اس کو آزاد غیر جانبدار رکھیں دوسرا اس کی ٹائم لائن ہونی چاہیے اور اس کا وقت لامحدود نہیں ہونا چاہیے"۔

حامد کو گزشتہ روز کراچی میں ائیر پورٹ کے قریب اس وقت نامعلوم افراد نے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا جب وہ اپنے دفتر جارہے تھے۔ انہیں زخمی حالت میں کراچی کے آغا خان ہسپتال پہنچایا گیا جہاں پر جیونیوز کے مطابق ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آپریشن کے بعد ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

pakistan, journalist hamid mir, bin laden, anschlag, karachi
حامد میر کی طرف سے اسامہ بن لادن کا انٹرویوتصویر: picture-alliance/dpa

اس حملے کے فوراً بعد حامد میر کے چھوٹے بھائی عامر میر نے جیو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اپنے بھائی پر حملے کا ذمہ دار ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈی جی لفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام اور چند دیگر افسران کو قرار دیا تھا۔ ان کے مطابق حامد میر نے اس حملے سے قبل تحریری طور پر اپنے ٹی وی چینل کی انتظامیہ اپنے اہل خانہ اور دوستوں کو بتا دیا تھا کہ انہیں کچھ ہوا تو اس کی ذمہ داری مذکورہ افراد پر ہوگی۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے حامد میر پر حملے کی مزمت کرتے ہوئے اس کی انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے مکمل ہونے سے قبل آئی ایس آئی پر الزام لگانا قابل افسوس بات ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ حامد میر کے بھائی عامر میر کے جذ بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ اتنے بڑے واقع کے بعد جذبات پر قابو نہ رہنا قدرتی امر ہے۔ ان کے بقول،" ہمیں بردباری تحمل اور سمجھداری کا مظاہر کرنا چاہیے جو بھی انکوائری ہو گی وہ آزادانہ ہونی چاہیے اور اس کے لیے جو بھی سپورٹ اور انفارمیشن ہوگی پوری طرح سے اس انکوئری کی مدد کی جائے گیا"۔

Pressefreiheit
آزادئی پریس کے حوالے سے پاکستان بین الاقوامی سطح کی تنقید کا نشانہ بنتا رہتا ہےتصویر: dapd

اتوار کو حامد میر کی عیادت کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کا کہنا تھا کہ حامد میر پر حملے میں وہ لوگ ملوث ہیں جو بندوق کے زور پر اپنا ایجنڈا نافز کرنا چاہتے ہیں۔ حامد میر پر قاتلانہ حملے میں آئی ایس آئی کے ملوث ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا،"کسی تحقیق سے پہلے کسی تفتیش سے پہلے میں ایسا کوئی لفظ اپنے منہ سے نہیں نکال سکتا جس سے تفتیش اور تحقیق متاثر ہو لہٰذا ہمارا پاکستان کا قانون جوراستہ بتاتا ہے اس کے مطابق ایف آئی آر درج کی جائے اور اسکی تحقیق اور تفتیش کی جائے اور اس کا جو بھی زمہ دار ہو اس کو قانون کے حوالے کیا جائے’’۔

ادھر حامد میر کے اہل خانہ چینل کی انتظامیہ اور قریبی دوستوں کا دعوٰی ہے کہ آئی ایس آئی کے حکام بلوچستان کے لاپتہ افراد کے معاملے، پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کی حمایت کے معاملے پر اور ایجنسیوں اور فوج کے کردار پر تنقید کی وجہ سے حامد میر سے ناخوش تھے۔