قیام پاکستان کی 69 ویں سال گرہ
اس سال پاکستان اپنے قیام کی 69 ویں سال گرہ اور اپنا 70واں یوم آزادی منا رہا ہے۔ موجودہ ملکی سیاسی حالات، دہشت گردانہ حملوں اور سکیورٹی خطرات کے باوجود عوام میں جشن آزادی منانے کا جذبہ ہمیشہ کی طرح اپنے عروج پر ہے۔
ہر شے سفید اور سبز ہلالی
جشن آزادی کے سلسلے میں ہر سال چودہ اگست کو رنگا رنگ تقاریب کا اہتمام کرنے کے علاوہ سرکاری اور نجی عمارتوں کو قومی پرچم اور جھنڈیوں سے سجانے کی روایت بہت پرانی ہے۔ اس بار لیکن عوام کو ملک میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے باعث یہ دن سادگی سے منانے کے لیے کہا گیا ہے۔ عوام میں تاہم روایتی جوش و خروش نظر آتا ہے جبکہ ہر شے سفید اور سبز ہلالی پہچان لیے ہوئے ہے۔
جھنڈے کی ناقص نقل
یہ جھنڈے اچھے تو ہیں لیکن کمرشل پروڈکشن میں رنگوں اور ان کے تناسب کا خیال نہیں رکھا گیا۔ جشن آزادی پر تیار ہونے والی جھنڈیاں دراصل زیادہ تر چین میں تیار ہوتی ہیں۔ وہاں سے وہ فیصل آباد لائی جاتی ہیں اور پھر راولپنڈی اسلام آباد پہنچتی ہیں۔ ایک دکاندار نے یہ بھی کہا کہ خود پاکستان میں تیار کردہ ایسی مصنوعات بہت غیر معیاری ہوتی ہیں اور اکثر گاہک چینی ساخت کا مال ہی پسند کرتے ہیں۔
اسٹال سڑک تک، خریدار سائیکل سوار
تیرہ اگست کی شام تک امیر غریب ہر کوئی پرچم یا اس سے جڑی مصنوعات خرید رہا تھا۔ اپنی گاڑیاں رکھنے والے تو جھنڈے خرید ہی رہے ہیں لیکن سائیکل سوار بھی اتنے ہی محب وطن ہیں جتنا کہ دوسرے شہری۔ اس تصویر میں ایک سائیکل سوار نوجوان ایک ایسے بچے سے ایک چھوٹا پرچم خریدنے کے لیے رکا ہے، جس نے اپنی عارضی دکان فٹ پاتھ سے لے کر سڑک تک پھیلا رکھی ہے۔
حب الوطنی آمدن کا ذریعہ بھی
چودہ اگست سے پہلے ہر سال مختلف اقسام کے کپڑے اور پلاسٹک کے بنے جھنڈے لاکھوں پاکستانیوں کے لیے آمدن کی وجہ بنتے ہیں۔ اکثر اسٹال ہولڈرز کے مطابق جشن آزادی ان جیسے غریبوں کے لیے محدود عرصے میں اچھی آمدن کا بہترین ذریعہ ہیں، خاص کر بچوں کے زیر استعمال آنے والے کلائی کے بینڈز، ماسک اور جھنڈیوں کی فروخت بیچنے والوں کے لیے زیادہ منافع بخش ثابت ہوتی ہے۔
چہرہ پرچم ہو تو سب چہرے ایک سے
چہرے پر پہنا جانے والا پلاسٹک کا یہ ماسک دکھاتا ہے کہ جب قومی پرچم کو چہرے پر پہن لیا جائے اور اپنی ظاہری شناخت بنا لیا جائے تو وطن، شہری، پرچم، چہرے اور شناخت، سب ایک ہو جاتے ہیں۔
وین پر وین جتنا بڑا جھنڈا
حب الوطنی کا تعلق کسی طبقے، مذہب، رنگ یا فرقے سے نہیں ہوتا۔ یہ کسی بھی ملک کے تمام شہریوں کا جذبہ ہوتی ہے۔ ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق اور اپنے انداز سے آزادی کا جشن مناتا ہے۔ اس تصویر میں نظر آنے والا ایک وین پر لہراتا، وین جتنا ہی بڑا جھنڈا ثابت کرتا ہے کہ وطن سے محبت محسوس کرنے کے علاوہ اس کے اظہار کا نام بھی ہے۔
گھروں پر لہرانے کے لیے بڑے جھنڈے
مختلف شہروں میں جگہ جگہ رنگ برنگے اسٹالز لگے ہیں اوربیس روپے سے لے کر دو ہزار روپے تک کی قیمت کے جھنڈے مارکیٹ میں فروخت ہو رہے ہیں۔ ایک اسٹال ہولڈر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کی روزانہ آٹھ ہزار سے لے کر دس ہزار روپے تک کی سیل ہو جاتی ہے اور گھروں پر لگانے کے لیے بڑے جھنڈوں کی مانگ زیادہ ہے۔
گاہک گاڑی میں، بیچنے والا فٹ پاتھ پر
اسلام آباد کے تقریبا تمام اہم مراکز پر جگہ جگہ اسٹال لگے ہیں اور اس بار سی ڈی اے بھی سٹال لگانے والوں سے بھرپور تعاون کر رہی ہے۔ انہیں اسٹال ہٹانے پر مجبور نہیں کیا جا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد میں اس سال ہر طرف جشن آزادی کے سامان سے بھرے اسٹال ہی اسٹال نظر آتے ہیں، جن کے قریب گاڑیاں آ کر رکتی ہیں اور ان کے مالکان ان پر جھنڈے لگواتے ہیں یا خرید کر ساتھ لے جاتے ہیں۔
قومی پرچم سے ڈھکا گاڑی کا بونٹ
جشن آزادی پر ایک اسٹال ہولڈر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تیرہ اگست کو ہمارا کاروبار صحیح عروج پر ہوتا ہے۔ مرد، عورتیں، بچے سب خریداری میں یکساں دلچسپی لیتے ہیں۔ نوجوان اپنی گاڑیوں کے سامنے بونٹ پراور موٹر سائیکل سوار بھی اپنی موٹر سائیکلوں پر جھنڈے ضرور لگواتے ہیں۔ اس دوکان دار نے بتایا کہ اتنے رش میں تین چار سو روپے کا جھنڈا آسانی سے چھ سات سو روپے میں بک جاتا ہے۔
چاند ستارے والی سبز سفید چھتری بھی
اس بار جشن آزادی سے متعلق مصنوعات میں چاند ستارے والی سفید اور سبز رنگوں کی چھتری بچوں میں بہت ہی مقبول رہی۔ ایک دکاندار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس بار اسلام آباد میں پچھلے برسوں کی نسبت بہت زیادہ اسٹال لگے ہیں۔ گزشتہ برس اسٹال کم تھے تو منافع زیادہ تھا۔ ’’اس بار لیکن مارکیٹ میں گاہکوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اور لوگ زیادہ خریداری کر رہے ہیں۔‘‘
ملک شہریوں سے، شہری ملک سے
اسلام آباد کی ایک کچی بستی میں اپنے والدین کے ساتھ رہنے والا چھ سالہ اللہ دتہ فیصل آباد کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے جشن آزادی کی تیاریوں کے لیے سامان بیچنا اچھا لگتا ہے۔ وہ اسکول نہیں جاتا لیکن ہر روز کچھ نہ کچھ کما کر گھر لوٹنا اسے آ گیا ہے۔ اللہ دتہ نے بتایا کہ وہ اور اس کے دو دوسرے بھائی بھی آج کل یہی کام کر رہے ہیں اور گھر کا خرچ چلانے میں اپنے والدین کی مدد کرتے ہیں۔
سات سالہ یتیم پاکستانی
شہزاد اختر کی عمر سات سال ہے اور وہ راولپنڈی میں مسلم ٹاؤن کا رہنے والا ہے۔ اس کے والدین کا انتقال ہو چکا ہے۔ وہ اپنی خالہ کے گھر رہتا ہے۔ شہزاد اسکول نہیں جاتا، محنت کرتا ہے، کبھی گاڑیوں کی کسی ورکشاپ میں اور کبھی کسی دکان پر۔ اس کو پہلی بار یہ اسٹال اس کے خالو نے لگوا کر دیا ہے۔ شہزاد نے بتایا کہ وہ رنگ برنگی جھنڈیوں اور ٹوپیوں سے خود کھیل بھی لیتا ہے اور انہیں بیچ کر پیسے بھی کما لیتا ہے۔