قندوز میں شہری ہلاکتیں، افغان کمیشن کی تحقیقات
14 ستمبر 2009ماہ رواں کے اوائل میں افغان شہر قندوز میں نیٹو کے فضائی حملوں کی حکومتی سطح کی تحقیقات میں 69 طالبان کے علاوہ 30 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوگئی ۔ اس حوالے سے باقاعدہ رپورٹ کچھ روز بعد جاری کی جائے گی۔
اس کمیشن کے مطابق جرمن کمانڈر کے حکم پر کئے گئے اس حملے میں متعدد طالبان کے علاوہ تیس شہری ہلاک جبکہ آٹھ دیگر زخمی ہوئے تھے۔ افغان حکومت کے اس تحقیقاتی کمیشن میں شامل محمد اللہ بقتش کا اس حوالے سے کہنا ہے: "ایسا لگتا ہے کہ شہری آبادی کو جانی نقصان ہوا ہے۔ مجھے اس کا بہت افسوس ہے اور اس واقعے کی تفصیلات جاننے کے لئے تحقیقات جاری ہیں۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ شہری ہلاکتوں میں کمی لائی جائے اور یہ ہماری توجہ کا بنیادی مرکز ہے۔ ہم نے اس حوالے سے نئی حکمت عملی بھی ترتیب دی ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں اور جون سے اب تک شہریوں کی ہلاکتوں کے واقعات میں تقریبا نوے فیصد کمی آئی ہے۔‘‘
بقتش نے مزید کہا کہ اس فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے 69 میں سے 49 طالبان اسلحہ سے لیس تھے۔ اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ فضائی حملہ اس وقت کیا گیا جب علاقے کے لوگ عسکریت پسندوں کی طرف سے قبضے میں لئے گئے ٹینکروں سے تیل حاصل کرنے کے لئے جمع تھے۔
اب تک کی رپورٹوں کے مطابق افغانستان میں جرمن فوج کی ایک امدادی ٹیم کے مقامی کمانڈر کے حکم پر امریکی طیاروں نے طالبان کے زیر قبضہ دونوں ٹینکروں پر حملہ کیا تھا کیوں کہ خدشہ تھا کہ ان ٹینکروں کو دہشت گردانہ کارروائی میں استعمال کیا جاسکتا تھا۔
افغانستان میں نیٹو اتحاد نے نے اس حملے میں شہریوں کی ہلاکت کو تو تسلیم کرلیا ہے تاہم اس حوالے سے نیٹو خود اپنی طرف سے انفرادی تحقیقات ابھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی طرف سے بھی قندوز میں اتحادی فوج کے اس فضائی حملے کی چھان بین کی جارہی ہے۔
افغانستان میں اتحادی فوج کی جانب طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف سال 2001 سے جاری آپریشن میں شہریوں کی بار بار کی ہلاکتوں کے باعث کابل حکومت کو سخت عوامی تنقید کا سامنا رہا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ حالیہ صدارتی انتخابات میں صدر کرزئی نے اپنے دوبارہ منتخب ہونے پر اس سلسلے میں عوام کو موثر اقدامات کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔
رپورٹ: میرا جمال
ادارت: مقبول ملک