فون اور ڈرون صحت کے شعبے کے لیے بھی انقلاب
31 اگست 2017احتیاط اور قبل از مرض بچاؤ کے طریقہ ہائے کار کی مدد سے صحت کو لاحق بہت سے خطرات کو ٹالا جا سکتا ہے۔ ترقی پزیر ممالک، جنہیں طبی نگہداشت اور مراکز کی کمی کا سامنا ہے اور طبی اسکریننگ اور ٹیسٹ انتہائی مہنگے ہیں، ایسے میں جدید ٹیکنالوجی بے انتہا کارآمد ثابت ہو رہی ہے۔
ٹیڈ گلوبل کی سالانہ کانفرنس میں اس بار ’خیال جنہیں پھیلایا جانا چاہیے‘ کے عنوان سے تنزانیہ میں منعقد ہو رہی ہے، جس میں غریب افراد کے لیے صحت کے شعبے میں انقلابی طرز کی جدید ٹیکنالوجی کی گونج سنائی دے رہی ہے۔
سیرالیون سے تعلق رکھنے والے روبوٹکس کے شعبے کے ایک ماہر ڈیوڈ سنگیہ کا خیال ہے کہ زیادہ ماہرین کو تربیت دینا ہی صحت کے شعبے میں موجود مسائل کا حل نہیں، بلکہ کینسر سے خلاف لڑائی میں ’مصنوعی ذہانت‘ کا استعمال کیا جانا بھی ضروری ہے۔ سنگیہ کی ٹیم آئی بی ایم افریقہ کی ایک ٹیم کے ساتھ مل کر سرطان کے مرض سے متعلق انتہائی ضروری معلومات جمع کر رہی ہے، جسے بعد میں استعمال کیا جائے گا۔
اس سافٹ ویئر کے ذریعے کارویکس میں رنگ کی تبدیلی کے ذریعے یہ جانچا جا سکے گا کہ آیا کسی مریض کو کارویکل کینسر کے خطرے کا سامنا ہے یا نہیں۔ کینسر کی اس قسم کی وجہ سے افریقہ میں سالانہ بنیادوں پر ساٹھ ہزار خواتین زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔
میسیچوسٹ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے وابستہ پراتک شاہ کا اس بابت کہنا ہے کہ اس حوالے سے کسی مہنگے ایم آر آئی یا سی ٹی اسکین کی بجائے عام کیمرے سے لی جانے والی تصویر بھی منہ کے سرطان کے علاج میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے اور اس حوالے سے ایک خصوصی سسٹم تیار کیا گیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے اس نظام کے تحت یہ نظام فوری طور پر ایسے کسی سرطان کے خطرات کا جائزہ دے دیتا ہے۔
افریقہ کے متعدد علاقوں میں اب ڈرونز کے ذریعے خون کی بوتلوں کی ایک علاقے سے دوسری علاقے تک منتقلی کا کام بھی جاری ہے۔ یہ ڈرونز کی بلڈبینک سے خون ہسپتالوں تک پہنچانے کا کام کر رہے ہیں۔ یہی ٹیکنالوجی اب دیگر ممالک دوسری طبی اشیاء کی ترسیل کے لیے بھی استعمال کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔