صومالیہ: مسلسل خانہ جنگی اور اب خود کش حملے
19 جون 2009صومالی صدر شیخ شریف شیخ احمد کے مطابق صومالیہ کے شہر بلادوین میں گاڑی میں رکھے بم کے پھٹنے کے نتیجے میں صومالیہ کے قومی سلامتی کے وزیر عمر ہاشی عدن ہلاک ہوگئے ہیں۔ رواں برس مئی سے صومالیہ میں موجود انتہا پسند اسلامی تنظیمیں الشباب اور حزب الاسلام صدر شیخ شریف شیخ احمد کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے مسلح کارروائیاں کر رہی ہیں۔ صومالیہ میں 1991 سے خانہ جنگی جاری ہے جس میں آج تک ہزار ہا افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
عمر ہاشی عدن صومالی حکومت میں ایک اہم شخصیت تھے اور ان کی کوششوں سے صومالیہ کا ایک بڑا حصہ عسکریت پسندوں کے قبضے سے آزاد کرا لیا گیا تھا۔ صومالی انتہا پسند اس وقت دارالحکومت موغادیشو کے اطراف میں جنوب اور مرکزی علاقے پر بڑی حد تک قابض ہیں۔
صومالی صدر نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی جانب سے صومالیہ کے تمام شہریوں کے ساتھ عمر ہاشی عدن کی موت پر تعزیت کرتے ہیں۔ اس دھماکے میں ایتھوپیا کے سابق سفیر بھی ہلاک ہوگئے۔
القاعدہ سے تعلق رکھنے والی تنظیم الشباب نے اس خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران افریقی ملک صومالیہ میں پر تشدد کارروائیوں میں واضح تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ ملکی صدر شیخ شریبف کی قیام امن کی کوششیں اور امیدیں بظاہر اب کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔
افریقی ریاستوں کی تنظیم افریقی یونین، عرب لیگ اور اقوام متحدہ نے اس خونریز حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ شدت پسند صومالیہ کی قانونی حکومت کو ختم کرنے اور اقتدار پر قابض ہونے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ابھی بدھ کے روز بھی صومالیہ میں ایک مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں 20 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
صومالی صدر شیخ شریف ماضی میں مزاحمت کاروں کے ساتھ تھے اور انہیں ابھی کچھ عرصہ قبل ہی اقوام متحدہ کی حمایت سے ملکی صدر منتخب کیا گیا تاہم شدت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ شیخ شریف مغرب کے بہت قریب ہیں۔
صومالیہ میں حالیہ لڑائی کا آغاز سن 2007 میں اس وقت ہوا تھا جب ایتھوپیا کی افواج نے اسلامی عدالتوں کی یونین نامی پارٹی کے خلاف کارروائی کے لئے صومالیہ کے اندر داخل ہو کر حملہ کیا۔ ماضی میں شیخ شریف کا تعلق اسلامک کورٹس یونین سے رہ چکا ہے۔
صومالی خانہ جنگی میں گذشتہ قریب دو عشروں سے کم از کم 18 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور قریباً دس لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت عام شہریوں کی تھی اور مسلسل خانہ جنگی کے شکار اس تباہ حال ملک کو طویل قحط سالی کی وجہ سے اشیائے خوراک کی شدید قلت کا سامنا بھی ہے۔