سوسیجز اور نوڈلز سے دوبارہ لطُف اندوز ہوا جا سکتا ہے
28 جنوری 2011جرمن دارالحکومت برلن میں جاری ہفتہ سبز کل یعنی اتوار کو اختتام پذیر ہوگا۔ اس مرتبہ اس کا انعقاد ایک ایسے وقت میں ہوا، جب جرمنی میں جانوروں کی خوراک میں زہریلے مادے ڈائی آکسن کی موجودگی ثابت ہونےکے بعد ایک ہزار سے زائد پولٹری فارمز بند کر دیے گئے۔ جرمن زراعتی صنعت کو گرچہ خاصی دشواریوں کا سامنا رہا تاہم برلن منعقدہ عالمی زراعتی میلے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انہیں صارفین کا اعتماد بحال کرنے میں واضح کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
جرمنی میں نہ صرف پولٹری فارمز بند کر دئے گئے بلکہ ہزاروں مرغیاں بھی تلف کی جا چکیں جس سے جرمنی کی اشیائے خورد و نوش کی صنعت کو بحران کا سامنا ہے۔ ایسے میں برلن میں ہفتہ سبز کا انعقاد نہایت اہم تھا تاکہ صارفین میں پائے جانے والے اُس خوف کو دور کیا جا سکے، جو ڈائی آکسن اسکینڈل کے سبب پیدا ہو گیا ہے۔
جرمن کسانوں کی فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری ’ہیلموٹ بورن‘ کے بقول ’ ہم صارفین کا اعتماد بحال کرنا چاہتے تھے اور اس میں ہمیں بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔‘ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ انڈوں، مرغیوں اور خنزیر کے گوشت کی تیزی سے گرتی ہوئی مانگ اور قیمتیں جلد ہی گزشتہ کرسمس سے پہلی والی سطح پر پہنچ جائیں گی۔
برلن میں ہر سال گرین ویک یا ہفتہ سبز جرمنی سمیت دنیا بھر کے اشیائے خوردو نوش کا کاروبار کرنے والوں کو ایک انوکھا موقع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنی مصنوعات کو لاکھوں صارفین کے سامنے رکھ سکیں۔ برلن کا ہفتہ سبز دراصل دنیا کا سب سے بڑا زراعی میلہ ہے۔ اس میلے میں اس سال اب تک تین لاکھ افراد جا چکے ہیں جبکہ منتظمین دس روز پر محیط اس بار کے ہفتہ سبز کے اختتام تک اس کا وزٹ کرنے والوں کی تعداد کم ازکم چار لاکھ ہونے کی امید کر رہے ہیں۔
برلن کی سب سے بڑی نمائش گاہ میں منعقد اس میلے میں دنیا کے ہر خطے کی غذائی ثقافت کے علاوہ موسیقی اور دست کاری کے انوکھے نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اس مرتبہ ہفتہ سبز میں شامل تمام نمائش کنندگان کو اپنی اپنی مصنوعات کی نمائش کے دوران عوام کی طرف سے سخت سوالات کے جواب بھی دینا پڑے اور انہیں بہت سے صارفین کی کڑی تنقید بھی سننا پڑی۔ خاص طور سے جرمن کسانوں اور زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو، کیونکہ ڈائی آکسن اسکینڈل سامنے آنے کے بعد لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اس زہریلے مادے سے آلودہ انڈوں کو پھینکنے کے بجائے ان سے تیار کردہ نوڈلز اورخراب گوشت، جس کے استعمال کی تاریخ بھی نکل چُکی ہو، کیا کچھ استعمال کے لئے نہیں مل رہا ۔ صارفین کی طرف سے احتجاج اور غصے کا اظہار حق بجانب تھاکیونکہ جب جانوروں کے ذبیحہ خانوں کے فُضلے میں مصنوعی ذائقہ دار کیمیائی مادے ملا کر سوسجز تیار کئے جائیں اور صارفین کو اس ذائقہ دار مہلک شے کھانے کی ترغیب دلائی جائے تو اس عمل کے پیچھے مجرمانہ نیت کے سوا اورکچھ نہیں ہو سکتا۔ تاہم جرمنی میں اس سلسلے میں سخت اقدامات کیے گئے، جس کے بعد اشیائے خوردونوش کو مارکیٹ میں لانے سے پہلے ان کی چھان بین اور جانوروں کو کھلائے جانے والے چارے کا معائنہ بہت سخت کر دیا گیا ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: ندیم گِل