1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سلمان شہباز کی حفاظتی ضمانت

عبدالستار، اسلام آباد
9 دسمبر 2022

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز کو حفاظتی ضمانت دینے کے سلسلے میں کچھ حلقے ملکی عدالتوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Ki8k
Nawaz Sharif Rede in Lahore
تصویر: picture alliance/AP Photo

کچھ ناقدین کے خیال میں یہ تاثر درست ہے کیونکہ شہباز شریف، اسحاق ڈار سمیت ن لیگ کے کئی رہنماؤں کے مقدمات کو عدالتوں میں فوری طور پر سنا گیا اور مبینہ طور پر ان کو ریلیف بھی دی گئی۔ جب کہ کچھ اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں اور ان کی یہ حجت ہے کہ عدالتیں فیصلے قانون اور شواہد کی روشنی میں ہی دیتی ہیں۔

سلمان شہباز کو یہ ضمانت اسلام آباد ہائی کورٹ سے ملی ہے، جس نے وفاقی تفتیشی ادارے ایف آئی اے کو سلمان شہباز کو گرفتار کرنے سے روک دیا ہے۔ سلمان شہباز دو ہزار اٹھارہ سے ملک سے باہر ہیں اورگزشتہ کچھ برسوں میں ان کے خلاف کئی مقدمات درج ہوئے۔

انہوں نے بدھ کو درخواست جمع کرائی تھی اور استدعا کی تھی کہ انہیں حفاظتی ضمانت دی جائے تا کہ وہ ٹرائل کورٹ کے سامنے اپنے آپ کو پیش کر سکیں۔ عدالت نے سلمان شہباز کو حکم دیا کہ وہ تیرہ دسمبر کو ٹرائل کورٹ کے سامنے حاضر ہوں۔

 

واضح رہے کہ کچھ برسوں سے سلمان شہباز پاکستان سے باہر ہیں اور ان پر اس دوران کچھ مقدمات بھی بنے۔ اربوں روپے کے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں بھی ان کا نام تھا۔ تاہم نیب قوانین میں ترمیم کے بعد بہت سارے میگا اسکینڈلز، بشمول منی لانڈرنگ کیس، اب نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں رہا۔

فیصلے شواہد پر ہوتے ہیں

معروف قانون دان جسٹس شائق عثمانی کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں یہ جو تاثر پیدا ہوا ہے یہ بنیادی طور پر سیاسی نوعیت کا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عدالتیں یہ جان بوجھ کر نہیں کرتیں بلکہ عدالتوں کے سامنے جو حقائق رکھے جاتے ہیں یا جو تفتیشی نکات سامنے آتے ہیں یا جو قانون کی تشریح ہوتی ہے، وہ اس کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں۔‘‘

جسٹس شائق عثمانی کے مطابق یہ ممکن ہے کہ شواہد  یا حقائق جمع کرنے میں غلطی ہوئی ہو، یا یہ کہ کسی جگہ قانون کی غلط تشریح بھی ہوئی ہو۔ ''لیکن یہ سب کچھ عدالتیں جان بوجھ کر نہیں کرتیں۔‘‘نواز، مریم اور صفدر پر فردِ جرم عائد: کیا یہ سیاسی انتقام ہے؟

اعتراض بے بنیاد ہے

کچھ ناقدین کے خیال میں حفاظتی ضمانت کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے اور اس پر بلاوجہ شور مچایا جا رہا ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان ریاض  حسین بلوچ کے مطابق حفاظتی ضمانت کوئی بڑی چیز نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' حفاظتی ضمانت کا صرف یہ مطلب ہے کہ کوئی سائل عدالت سے یہ  کہے کہ میں عدالت کے روبرو پیش ہوکرضمانت کے لیے آنا چاہتا ہوں لیکن اسی اثناء میں مجھے پولیس تنگ نہ کرے، مجھ کو ہراساں نہ کیا جائے یا مجھے ذلیل نہ کیا جائے۔ ایسی ضمانت مختصر وقت کے لیے ہوتی ہے اور یہ عدالت کم وقت میں بھی دے سکتی ہے۔‘‘

لیکن قانونی پیچیدگیوں سے بے نیاز پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اس مسئلے پر تنقید کا ایک طوفان کھڑا کردیا ہے۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری سے لے کر سابق وزیر اطلاعات نشریات فواد چوہدری تک تقریباً سب نے اس عدالتی حکم کو براہ راست یا بالواسطہ طریقے سے تنقید اور طنز کا نشانہ بنایا۔ پارٹی کا اصرار ہے کہ ن لیگ کو عدالتیں ہمیشہ رعایت دیتی ہیں یا اس کے ساتھ نرمی برتتی ہیں۔پاکستانی عدلیہ میں اصلاحات کا حکومتی منصوبہ تنقید کی زد میں

  نرمی کا تاثر

عدالتوں کی طرف سے رعایت دینے کے اس تاثر کو فروغ دینے میں پی ٹی آئی آگے آگے ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما اور سابق مشیر برائے فوڈ سکیورٹی جمشید اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ شریف فیملی نے ہمیشہ عدالتوں کو زیر اثر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ''یہ تاثر بالکل درست ہے کہ شریف فیملی کو رعایت دی جاتی ہے یا ان سے نرمی برتی جاتی ہے کیونکہ شریف فیملی ججوں کی تقرری ہی ایسے انداز میں کرتی ہے کہ جج ان کے قریب ہوں۔ گزشتہ برس نومبر میں میرے ایک مقدمے میں تین بینچوں کے ججوں نے کیس سننے سے یہ کہہ کر معذرت کی کہ ان کے شریف فیملی سے مراسم ہیں۔ یہ ریکارڈ کا حصہ ہے اور اس پر میں نے پریس کانفرنس بھی کی تھی۔‘‘

جمشید اقبال چیمہ کے مطابق تاہم یہ رعایت صرف عدالتوں سے ہی نہیں بلکہ طاقتور حلقوں کی طرف بھی دی جاتی ہے۔ ''اسی لیے تو ملک میں کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو پاتا۔‘‘

چیئرمین نیب کو ہٹانے کا پاکستانی صدر کا اختیار تنقید کی زد میں

’وکلا میں بھی یہی تاثر ہے‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے قانونی ماہراظہر صدیق کا کہنا ہے کہ یہ تاثر صرف عوام میں ہی نہیں بلکہ وکلاء برادری میں بھی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آج ساری وکلا برادری مجھ سے پوچھ رہی ہے کہ عدالت میں حاضر ہوئے بغیر کسی بھی ملزم کو حفاظتی ضمانت کیسے دی جا سکتی ہے۔  بہت ساری ایسی مثالیں ہیں، جہاں عدالت نے کہا کہ ملزم کو پیش ہونا پڑے گا۔ لیکن یہاں پر سلمان شہباز کو بغیر پیش ہوئے ہی ضمانت دی گئی ہے۔‘‘

اظہر صدیق کے مطابق ماضی میں حمزہ شریف کو ضمانت دینے کے لیے چھٹی کے دن بھی عدالت لگی۔ ''بالکل اسی طرح بے نظیر کے دور کی اسمبلی تحلیل ہوئی اور نواز شریف کے دور میں بھی اسمبلی تحلیل ہوئی۔ دونوں عدالت گئے اورکوئی دونوں فیصلوں کو دیکھ لے، تو آسانی سے سمجھ جائے گا کہ  یہ تاثر کس حد تک درست ہے۔‘‘

عدلیہ کی آزادی، پاکستان کیوں بہت پیچھے رہ گیا؟

عام آدمی اور ضمانت

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ یہ تاثر کسی حد تک درست ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ایک عام آدمی کو ضمانت لینے کے لیے اچھا خاصا انتظار کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے تمام چیزیں فوری طور پر نہیں ہوتیں۔ بالکل اسی طرح جج نے کہا کہ ملزم کو پیش ہونا چاہیے لیکن پھر بھی عدم پیشی پر حفاظتی ضمانت دے دی، جس کے لیے بہت ہی مضبوط قانونی دلیل کا ہونا ضروری ہے اور یہ بھی اس صورت میں جب جج ضمانت دینے کے لیے  اپنا اختیار استعمال کررہا ہو۔‘‘

کیا پاکستان میں ججز کی خفیہ نگرانی جاری ہے؟

نیب قوانین میں ترمیم

جسٹس وجیہہ کے مطابق عدالتوں کو اس بات کا بھی نوٹس لینا چاہیے کہ نیب قوانین کے خاتمے کے باوجود قانون شہادت موجود ہے۔ ''اس قانون کے مطابق کسی حقیقت کی موجودگی میں، ملزم کو اس کی موجودگی کے حوالے سے ثابت کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے اعلان کردہ ذرائع کے مطابق آپکی آمدنی پانچ لاکھ ہے لیکن پیسہ آپ کے پاس پچاس کروڑ ہے۔ تو یہ آپ کو ثابت کرنا ہے کہ آپ کے پاس یہ پیسہ کہاں سے آیا۔ لیکن نیب کے قانون میں ملزم سے اب یہ پوچھا نہیں جائے گا۔ حیرت ہے کہ عدالتوں میں اس نقطے کو اٹھایا نہیں گیا۔‘‘