سری لنکا میں عام شہریوں کی ہلاکتیں اور انسانی حقوق کے ادارے کی رپورٹ
6 مارچ 2008دونوں اطراف کی کارروائیوں کے نتیجے میں ملک بھر میں سینکڑوں لوگ اغوا، گمشدہ اور ہلاک ہو چکے ہیں۔
امن معاہدے کے خاتمے کے بعد سری لنکا میں اغوا ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد ملک کے تامل باشندوں کی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ان گمشدگیوں کے پیچھے مرکزی کردار سری لنکا کے حکومتی اداروں اور حکومت نواز ملیشیا نے ادا کیاہے۔
سری لنکن حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی بحالی کا یہ بین الاقوامی ادارہ ملک میں انسانی حقوق کے بحران کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔
سری لنکا پر رپورٹ پیش کرتے ہوئے ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا شعبے کے نائب ڈائرکٹر Elaine Pearson نے بتایا کہ مذکورہ رپورٹ میں ہلاک اور اغوا شدگان کے رشتے داروں کے انٹرویو بھی شامل ہیں۔ گمشدگان میں سے بیشتر کے لواحقین کا کہنا ہے کہ اغوا یا گمشدگی سے کچھ دیر قبل پولیس تفتیش کے لئے آئی تھی۔ جبکہ کچھ خاندانوں نے بتایا کہ ان کے افراد کی گمشدگی سے کچھ دیر پہلے پولیس نے بندوق کی زد پر ان سے پوچھ گچھ کی تھی۔ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جن کو دن دھاڑے نا معلوم افراد نے سفید ویگنوں میں ڈال لیا۔ لواحقین کے مطابق جب انھوں نے اپنے رشتے داروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو پولیس نے ان کی حراست سے انکار کر دیا۔
ملک میں پچھلے پچیس سال سے جاری اس خانہ جنگی کا سب سے بڑا اثر عام شہریوں پر دیکھنے میں آیا ہے۔ اس صورتحال کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انسانی حقوق کی مبیّنہ زیادتیوںکی تفتیش کرنے والے ایک بین الاقوامی ادارے کے مبصرین نے سری لنکا میں اپنے کام کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سری لنکا کی حکومت کی طرف سے ان کے کام میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں عام شہری ہلاکتوں کی تحقیقات غیر شفاف انداز میں کی جا رہی ہیں۔
تامل ٹائیگرز اور حکومت کے درمیان پر تشدد واقعات سلسہ ابھی تک جاری ہے ۔ اس حوالے سے تازہ اطلاعات کے مطابق جمعرات کے روز سری لنکن فوج نے شمالی علاقہ جات میں ایک تامل نواز رکن پالیمان کو مبیّنہ طور پر بم دھماکے میں ہلاک کر دیا ہے۔ تامل ذرائع نے بھی انکی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔