زمبابوے کے بحران پر خاموشی جرم کے مترادف: رائلا اوڈینگا
8 دسمبر 2008زمبابوے میں گہرے سیاسی اور شدید معاشی بحران کی پریشانیوں کے بعد اب گُزشتہ دو ماہ سے ہیضےکی وباء نے تقریباً چھہ سو افراد کو موت کے منہ میں دھکیلا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم گارڈن براٴون، امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس کے بعد اب کینیا کے وزیر اعظم نے بھی صدر موگابے پر شدید تنقید کی ہے۔
کینیا کے وزیر اعظم رائلا اوڈینگا نے افریقی یونین اور اقوام متحدہ سے پُر زور مطالبہ کیا ہےکہ وہ زمبابوے کی موجودہ ’ابتر‘صورتحال پر خاموشی نہ اختیار کریں۔ اوڈینگا نے کہا کہ زمبابوے کے بحران پر خاموشی اختیار کرنا ’’انسانیت کے خلاف جرم کے مترداف ہے‘‘۔
رائلا اوڈینگا نے عالمی طاقتوں سے اپیل کی کہ وہ افریقی ملک زمبابوے کے پریشان حال اور مجبور لوگوں کی صدا کو نظر انداز نہ کریں۔ کینیا کے وزیر اعظم نے کہا کہ عالمی برادری کو زمبابوے کی عوام کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے مناسب کارروائی بھی کرنا ہوگی۔
کینیا کے وزیر اعظم نے فوجیوں سے اپیل کی کہ وہ رابرٹ موگابے کو صدارتی عہدے سے ہٹادیں۔ اوڈینگا نے افریقی یونین پر زور دیتے ہوئے کہا: ’’ ایک قرارداد تیار کریں اور فوراً افریقی یونین کے فوجی دستوں کو زمبابوے روانہ کریں، اگر یونین کے پاس اتنے فوجی نہیں ہیں تو اُس صورت میں اقوام متحدہ کو مداخلت کرکے اس ملک کو بحران سے بچانا ہوگا۔‘‘
اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت زمبابوےکی تقریباً نصف آبادی کو خوراک اور پینے کے صاف پانی کی ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہے۔ سیاسی اور اقتصادی بحران کے بعد اب زمبابوے میں ہیضے یعنی کالرا کی وباء پھیلنے سے بھی لوگوں کو زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ محتاط اندازوں کے مطابق رواں برس اگست سے اب تک وہاں تقریباً چھہ سو افراد ہیضے کے باعث موت کا شکار ہوگئے ہیں جبکہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق مرنے والوں کی تعداد سرکاری اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے۔
کالرا سے متاثر کئی افراد زمبابوے میں ضروری ادویات کی قلت اور ہسپتالوں میں غیر تسلی بخش صورتحال کے باعث ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگے ہیں۔ ملک کے ڈاکٹروں نے بھی متعدد احتجاجی مُظاہرے کئے ہیں۔