زمبابوے: فوج نے اقتدار سنبھال لیا
15 نومبر 2017خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فوجیوں اور بکتر بند گاڑیوں نے دارالحکومت ہرارے کے وسطی حصے میں واقع مرکزی حکومتی دفاتر، پارلیمان اور عدالتوں تک جانے والے راستوں کو بند کر رکھا ہے۔
زمبابوے کی فوج کے چیف آف اسٹاف لاجسٹکس میجر جنرل ایس بی مویو نے ملکی ٹیلی وژن پر بتایا، ’’ہم صرف ان (موگابے) کے ارد گرد موجود مجرموں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو ایسے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں جن کی وجہ سے ملک میں سماجی اور معاشی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں تاکہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔‘‘ جنرل مویو کا مزید کہنا تھا، ’’جیسے ہی ہم اپنا مشن مکمل کر لیں گے، ہمیں امید ہے کہ صورتحال معمول کی طرف لوٹ جائے گی۔‘‘
روئٹرز کے مطابق فوج کی طرف سے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے نہ تو زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے اور نہ ہی ان کی اہلیہ اور صدراتی عہدے کی آئندہ ممکنہ امیدوار گریس موگابے کہیں دکھائی دیے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی پیغام منظر عام پر آیا ہے۔ موگابے گزشتہ 37 برس سے زمبابوے کے حکمران چلے آ رہے ہیں۔
’نہ مر رہا ہوں، نہ کہیں جا رہا ہوں،‘ صدر موگابے کا اعلان
افریقی یونین کے نئے سربراہ: رابرٹ موگابے
زمبابوے کی اپوزیشن ’’موومنٹ فار ڈیموکریٹک چینج‘‘ کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک کو پر امن طریقے سے آئینی جمہوریت کی طرف واپس لایا جائے۔ اس کے علاوہ یہ امید بھی ظاہر کی گئی ہے کہ فوجی مداخلت کا نتیجہ ’ایک مستحکم، جمہوری اور ترقی پسند قوم رکھنے والی ریاست کی شکل میں نکلے گا۔‘
ایک حکومتی ذریعے نے روئٹرز کو بتایا کہ ملکی وزیر خزانہ ایگانٹیئس چومبو کو فوج نے حراست میں لے لیا ہے۔ چومبو حکمران جماعت ZANU-PF کے رکن ہیں۔ اس جماعت کی سربراہ موگابے کی اہلیہ گریس ہیں۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد زمبابوے کے سرکاری ٹیلی وژن پر جاری ہونے والے بیان میں ملکی فوج کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ملک کی صورتحال ایک اور مرحلے میں داخل ہو چکی ہے: ’’سب سے پہلے ہم قوم کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ جمہوریہ زمبابوے کے عزت مآب صدر اور زمبابوے کی دفاعی افواج کے کمانڈر ان چیف کمانڈر آر جی موگابے اور ان کا خاندان محفوظ ہیں اور ان کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا ہے۔‘‘
امریکا اور برطانیہ نے زمبابوے کے دارالحکومت ہرارے میں موجود اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ ’’سیاسی بے یقینی‘‘ کے سبب گھروں میں ہی رہیں اور باہر نکلنے سے گریز کریں۔