1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

روسی یوکرینی جنگ: جرمن گھرانو‌ں پر اربوں یورو کا اضافی بوجھ

15 اگست 2022

جرمن حکومت نے یوکرینی جنگ کے باعث ملک میں توانائی کی قلت کے پیش نظر انرجی سرچارج کی شرح کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ شرح تقریباﹰ ڈھائی سینٹ فی کلو واٹ گھنٹہ ہو گی جس کا مطلب عام شہریوں پر اربوں یورو کا اضافی مالی بوجھ ہو گا۔

https://p.dw.com/p/4FY31
یکم اکتوبر سے نافذ العمل ہونے والے نئے انرجی سرچارج سے جرمن صارفین پر اربوں یورو کا اضافی مالی بوجھ پڑے گاتصویر: picture-alliance/dpa/P. Seeger

جرمنی بھی چند ماہ پہلے تک یورپی یونین کے کئی دیگر رکن ممالک کی طرح زیادہ تر روس سے درآمد کردہ قدرتی گیس پر انحصار کرتا تھا۔ لیکن روسی یوکرینی جنگ کے نتیجے میں ایک طرف اگر یورپ کو روسی گیس کی ترسیل متاثر ہوئی تو ساتھ ہی یورپ نے روس کو سزا دینے کے لیے ماسکو پر کئی طرح کی پابندیاں بھی لگا دیں۔

توانائی کا بحران، جرمنی کی نگاہ شمسی توانائی پر

اس پس منظر میں برلن میں وفاقی جرمن حکومت گزشتہ کئی ہفتوں سے خبردار کر رہی تھی کہ آئندہ موسم سرما میں عام جرمن صارفین کو اپنے گھروں کو گرم رکھنے کے لیے گیس کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے لیے حل یہ نکالا گیا تھا کہ دیگر ممالک سے درآمدی گیس کی قیمتیں زیادہ رہنے اور عام صارفین کو توانائی کی بچت پر مجبور کرنے کے لیے ایک نیا انرجی سرچارج متعارف کرایا جائے گا۔

نئے توانائی ٹیکس کی شرح

برلن حکومت نے پیر پندرہ اگست کے روز اس نئے توانائی ٹیکس یا انرجی سرچارج کی شرح کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس خصوصی ٹیکس کی شرح 2.419 سینٹ فی کلو واٹ گھنٹہ ہو گی۔ لیکن اس شرح کے اعلان کے ساتھ ہی ملکی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا جانے لگا ہے کہ حکومت اس نئے مالیاتی بوجھ میں کمی کی خاطر عام شہریوں کے لیے ریلیف کا اعلان بھی کرے۔

جرمن حکومت کا گیس صارفین پر نیا ٹیکس عائد کرنے کا منصوبہ

Heizkörper in einer Wohnung mit Deutschland Nationalflagge in Landesfarben und Euro Symbolen an der Wand
جرمنی می نئے انرجی سرچارج کے دو بڑے اسباب: درآمدی گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور عام صارفین کو توانائی کی بچت پر مجبور کرناتصویر: Michael Bihlmayer/CHROMORANGE/picture alliance

یورپی یونین کا ہنگامی گیس منصوبے کے معاہدے پر اتفاق

جرمنی میں توانائی کی ترسیل کے کاروباری نیٹ ورکس کے منتظم اداروں کی ایک غیر منافع بخش تنظیم ٹریڈنگ ہب یورپ کے مطابق روس سے گیس کی درآمدات میں واضح کمی کے بعد دیگر ممالک سے درآمد کردہ گیس کی قیمتوں میں کافی زیادہ اضافے کے نتائج کا سامنا اب تک ملکی انرجی کمپنیاں ہی کر رہی تھیں۔ نئے انرجی سرچارج سے ان کمپنیوں پر پڑنے والا مالی بوجھ کچھ کم ہو جائے گا۔

ایک عام  جرمن گھرانے پر اوسطاﹰ پانچ سو یورو کا اضافی بوجھ

ٹریڈنگ ہب یورپ کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں چار افراد پر مشتمل ایک گھرانہ اوسطاﹰ سالانہ 20 ہزار کلو واٹ گھنٹہ توانائی استعمال کرتا ہے۔ اگر 2.419 سینٹ فی کلو واٹ گھنٹہ کی شرح سے اس نئے انرجی سرچارج کو دیکھا جائے، تو ایسے کسی اوسط جرمن گھرانے پر پڑنے والا اضافی مالی بوجھ 484 یورو (تقریباﹰ 494 امریکی ڈالر) کے برابر تک ہو گا۔

یورو زون میں افراط زر تاریخی حد تک زیادہ، بڑی وجہ یوکرینی جنگ

لیکن یہ اندازہ بھی قانوناﹰ وصول کیے جانے والے گڈز اینڈ سروسز ٹیکسوں کے بغیر لگایا گیا ہے۔ اگر اس میں معمول کے دوسرے ٹیکس بھی شامل کر لیے جائیں تو عام جرمن گھرانوں پر اس اضافی بوجھ کی مالیت یقینی طور پر 500 یورو سے زیادہ ہی رہے گی۔

Deutschland Energie l Symbolbild zu steigenden Stromkosten
جرمنی میں چار افراد پر مشتمل ایک گھرانہ اوسطاﹰ سالانہ بیس ہزار کلو واٹ گھنٹہ توانائی استعمال کرتا ہےتصویر: Micha Korb/pressefoto_korb/picture alliance

نیا انرجی سرچارج یکم اکتوبر سے نافذ العمل

جرمن حکومت نے جس نئے انرجی سرچارج کی شرح کا اعلان کیا ہے، اس کی وجہ سے ملکی صارفین مجموعی طور پر اربوں یورو کی رقوم اضافی طور پر ادا کریں گے۔ یہ نیا ٹیکس ملک بھر میں یکم اکتوبر سے نافذ العمل ہو جائے گا۔

اگر روس نے گیس بند کر دی تو جرمنی کا کیا بنے گا؟

وفاقی جرمن وزیر اقتصادیات رابرٹ ہابیک نے اس بارے میں کہا، ''یہ قدم اٹھانا حکومت کے لیے کسی بھی طور پر کوئی آسان کام نہیں تھا۔ لیکن یہ اس لیے لازمی ہو گیا تھا کہ سردیوں میں گھروں کو گرم رکھنے کے ساتھ ساتھ عام گھرانوں اور ملکی معیشت کے لیے دیرپا بنیادوں پر توانائی کی ترسیل کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔‘‘

رابرٹ ہابیک نے تاہم وعدہ کیا کہ اس نئے ٹیکس کے متعارف کرائے جانے کے بعد مرکزی حکومت عام صارفین کے لیے ایک اور مالیاتی ریلیف پیکج کا اعلان بھی کرے گی، تاکہ عام جرمن صارفین پر پڑنے والے اربوں یورو کے اس نئے بوجھ کو کم رکھا جا سکے۔

م م / ک م (اے ایف پی، ڈی پی اے)