دنيا ميں کہاں کہاں مظاہرے جاری ہيں؟
حکومت مخالف غم و غصہ کئی ملکوں میں پرتشدد مظاہروں میں بدل چکا ہے، جس کی وجہ مہنگائی، سماجی نا انصافياں، اداروں کی بد انتظامی اور ديگر مسائل ہیں۔
پاکستان
جميعت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن کی قيادت ميں ہزاروں افراد نومبر کے اوائل ميں اسلام آباد پہنچے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ وزير اعظم عمران خان مستعفی ہوں اور نئے عام انتخابات کروائے جائیں۔ حکومت نے ان کے مطالبات رد کر دیے ہیں۔
عراق
عراق ميں ملک گير سطح پر احتجاج ميں نومبر کے اوائل تک ڈھائی سو سے زائد افراد ہلاک اور گيارہ ہزار سے زيادہ زخمی ہو چکے ہيں۔ نوجوان نسل بد عنوانی، اقتصادی بد حالی اور ہسپتالوں کے ناقص نظام کے خلاف متحرک ہے۔
لبنان
لبنان ميں بد عنوانی اور اداروں ميں بد انتظامی کے خلاف لوگ متحد ہو کر باہر نکلے ہیں۔ احتجاج نے مذہبی، نسلی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو بظاہر پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ ملک گير مظاہروں کا سلسلہ اکتوبر کے وسط سے شروع ہوا اور گرچہ نومبر کے اوائل ميں ريليوں ميں کمی ديکھی گئی ليکن يہ تحريک ابھی ختم نہيں ہوئی۔
چلی
جنوبی امريکی ملک چلی ميں مظاہرے حکومت کی جانب سے زير زمين ٹرين يا سب وے کے کرايوں ميں اضافے سے شروع ہوئے۔ احتجاج کا دائرہ کار وسيع تر ہوتا گيا اور لوگ معاشی عدم توازن، تعليم اور صحت سے متعلق ناقص سہوليات جيسے تمام مسائل پر سڑکوں پر نکل آئے۔ دارالحکومت سنتياگو ميں ستمبر کے اواخر ميں تاریخی مظاہرے ميں دس لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ ہنگاموں اور مظاہروں ميں بيس افراد ہلاک ہوئے۔
ہانگ کانگ
ہانگ کانگ کے لوگ کئی مہینوں سے چين کی سياسی مداخلت کے خلاف اور جمہوری اقدار کے لیے احتجاج کر رہے ہيں۔ یہ مظاہرے انتظاميہ کی جانب سے ايک متنازعہ بل پيش کيے جانے کے بعد جون ميں شروع ہوئے۔ ہانگ کانگ ميں جاری يہ احتجاج اب باقاعدہ تحريک کی شکل اختيار کر چکا ہے اور ہر ہفتے کے اختتام پر عوام سڑکوں پر نکلتے ہيں۔ کئی واقعات ميں تشدد بھی ديکھا گيا۔