1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین ٹیکسی سروس، پاکستانی خواتین میں مقبول

بینش جاوید، روئٹرز
26 دسمبر 2017

کراچی کی خواتین ٹیکسی ڈرائیورز معاشرتی دباؤ کے باوجود اس شہر کی خواتین کو دفاتر، بازاروں اور  شادی بیاہ کی تقریبات سے  اپنے گھروں تک با حفاظت پہنچانے کا کام بخوبی سر انجام دے رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2pvnw
Pakistan Pink-Taxi nur für Frauen
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال مارچ سے پاکستان کے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر کراچی میں ’پیکسیز‘ کے نام سے ایک خواتین کے لیے ٹیکسی سروس کا آغاز ہوا ہے۔ اس کمپنی کی خواتین ڈرائیورز کا کہنا ہے کہ انہیں سٹرکوں پر ہراساں کیے جانے جیسے مسائل کا سامنا ہے لیکن وہ باہمت ہیں اور اس کام کو جاری رکھنے کے لیے پر عزم بھی۔

43 سالہ شمیمہ بانو کا کہنا ہے،’’ ہراساں کیے جانا اس کام کا ایک منفی پہلو ہے۔ سب سے اچھا یہی ہے کہ ایسے افراد کو نظر انداز کر دیا جائے۔ ایک وقت آئے گا جب ان لوگوں کو ہمیں سڑکوں پر گاڑیاں چلاتے ہوئے دیکھنے کی عادت پڑ جائے گی۔‘‘

Pakistan Pink-Taxi nur für Frauen
پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کرنے والی زیادہ تر خواتین جنسی طور پر ہراساں ہوتی ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

دو بیٹوں کی والدہ شمیمہ کا کہنا ہے کہ ٹیکسی چلانے سے قبل وہ ایک دفتر میں سکریٹری تھی۔ اس نے وہ نوکری اس لیے چھوڑ دی کیوں کہ اسے اس کے باس کی طرف سے جنسی ہراسگی کا سامنا تھا۔ شمیمہ نے بتایا،’’ عورتوں کے ساتھ کام کرنا میرے لیے بہت پرسکون ہے۔ مجھے اب ہر وقت محتاط رہنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ اس کمپنی میں بارہ سال سے بڑی عمر کے لڑکوں اور مردوں کو سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

Pakistan Pink-Taxi nur für Frauen
س کمپنی میں بارہ سال سے بڑی عمر کے لڑکوں اور مردوں کو سفر کرنے کی اجازت نہیں ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

دو کروڑ کی آبادی والے شہر کراچی میں خواتین کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا اتنا آسان نہیں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق  پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کرنے والی زیادہ تر خواتین جنسی طور پر ہراساں ہوتی ہیں۔ ’پنک ٹیکسی‘ کی سہولت سے قبل عام ٹیکسیوں میں خواتین کو کبھی بدبو دار گاڑیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا یا پھر کسی ایسے مرد ڈرائیوروں کے ساتھ سفر کرنا پڑتا تھا جو انہیں شیشے سے گھورتے رہتے تھے۔

پاکستان: کریم ٹیکسی کی خواتین ڈرائیورز

تھامسن روئٹرز فاؤندیشن کی رپورٹ کے مطابق یہ ٹیکسی سروس اب سندھ کے شہر سکھر اور پھر خیبر پختونخواہ کے شہر پشاور میں بھی شروع کی جائے گی۔ اس سروس کے بانی شیخ ایم زاہد کا کہنا ہے،’’ پاکستان میں  تعلیم یافتہ خواتین کی کمی نہیں ہے لیکن اکثر خواتین گھروں سے صرف اس لیے نہیں نکل پاتیں کیوں کہ سفر کی مناسب سہولیات میسر نہیں ہیں۔‘‘

خواتین کے لیے ٹیکسی سروس کا آغاز کرنے والی حرا بتول

اوبر ٹیکسی: پاکستانی ڈرائیوروں کو خواتین کے تحفظ سے متعلق تربیت

زاہد کے مطابق خواتین ڈرائیورز کو تلاش کرنا ایک چیلنج ہے۔ ان کا کہنا ہے،’’ شروع میں والدین کو اس بات کے لیے منانا بہت مشکل تھا کہ ان کی بیٹیاں بطور ڈرائیور کام کریں لیکن آج یہ خواتین معاشرے کی دیگر خواتین کے لیے مشعل راہ بن گئی ہیں۔‘‘