حوا کی ایک اور بیٹی معاشرے کی بربریت کا شکار
17 جون 2016خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق بائیس سالہ مقدس بی بی نے تین برس قبل اپنے اہل خانہ کی اجازت اور خواہش کے بغیر توفیق احمد سے شادی کر لی تھی۔ شادی کے بعد مقدس بی بی اور اس کے اہل خانہ کے تعلقات منقطہ ہو گئے تھے۔ اس کیس کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر محمد ارشد نے اے ایف پی کو بتایا، ’’جمعرات کے روز بی بی ہسپتال میں اپنا چیک اپ کرانے گئی تھی، جہاں اس کی ماں اور بھائی نے اسے گھر واپس آنے کا کہا اور یقین دلایا کہ انہوں نے بی بی کو معاف کرتے ہوئے اس کا فیصلہ قبول کر لیا ہے۔‘‘
مقامی پولیس اسٹیشن کے پولیس افسر گوہر عباس کا کہنا ہے کہ جب مقدس بی بی اپنے والدین کے گھر پہنچی تو اس کے والد، بھائی اور ماں نے چاقو سے اس کا گلہ کاٹ دیا اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئی۔ بی بی ایک دس ماہ کی بچی کی ماں تھی اور دوسری مرتبہ حاملہ تھی۔ گوہر عباس نے مزید بتایا، ’’بی بی کو قتل کرنے کے بعد اس کے اہل خانہ فرار ہوگئے ہیں۔ پولیس ان کو تلاش کر رہی ہے اور ایک رشتہ دار کو حراست میں بھی لے لیا گیا ہے، جس نے بی بی کو قتل کرنے کے لیے خاندان کو بھڑکایا تھا۔‘‘
پاکستان میں ہر سال سينکڑوں خواتین کو ان کے رشتہ دار ’خاندان کی عزت پر دھبا لگا دینے‘ کے جرم میں قتل کر دیتے ہیں۔ چند روز قبل لاہور میں ایک 16 سالہ لڑکی زینت رفیق کو اس کی ماں نے اپنی پسند سے شادی کر لینے پر زندہ جلا دیا تھا۔ ایک اور واقعے میں لاہور میں ہی ایک شادی شدہ جوڑے کو پسند کی شادی کرنے کے سبب رشتہ داروں نے قتل کر دیا تھا۔ گزشتہ اتوار کے روز صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں ایک بھائی نے اپنی بہن کو اپنی پسند کے ایک شخص کے ساتھ شادی کرنے کے اسرار پر قتل کر دیا تھا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی ايک کارکن طاہرہ عبداللہ نے چند روز قبل غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر بات کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا تھا، ’’پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کرنا قانوناﹰ جرم ہے تاہم اس قانون کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ سماجی کارکن ثمر من اللہ نے بھی اس موقع پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ اسلام اور پاکستان کا آئین دونوں ہی ایک بالغ لڑکی کو اپنی پسند سے شادی کرنے کی اجازت دیتے ہیں، کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ ایک عورت کو محض اپنی پسند کی شادی کرنے کی اتنی بڑی سزا دے۔‘‘
واضح رہے کہ حال ہی میں پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل نے غیرت کے نام پر قتل کرنے کو غیر اسلامی قرار ديا تھا اور کہا تھا کہ کسی بھی شخص کو ایک دوسرے انسان کی جان لینے کا اختیار نہیں۔