جی ٹوئنٹی اجلاس کا اختتام : ہنگامے اورگرفتاریاں
28 جون 2010دنیا کی بیس اہم ترین معاشی قوتوں کےرہنماؤں کے فورم جی ٹوئنٹی اور جی ایٹ کے اجلاسوں کے لئے کینیڈین حکومت نے کانفرنس کے باہر تقریباً بارہ ہزار پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا تھا، جو کینیڈین تاریخ کا سب سے بڑا سکیورٹی آپریشن تھا۔
اس موقع پر چین کے صدر ہُو جِن تاؤ نے امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے امریکہ کے دورے کی دعوت قبول کر لی۔ ادھر امریکی صدر نے چین کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا، جس کے تحت وہ اپنی کرنسی یوآن کے ایکسچینج ریٹ کو زیادہ لچکدار بنائے گا۔
صدر اوباما نے جی ٹوئنٹی اجلاس کے بعدگذشتہ رات اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ چینی صدر کے ان اقدامات پر بہت خوش ہیں۔
امریکی صدر باراک اوباما نے افغانستان سے فوجیوں کے انخلاء کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ’ ہمارے پاس اب دو ہی راستے ہیں: یا تو ہم افغانستان سے اپنی افواج نکال لیں اور یا پھر غیر معینہ مدت کے لئے وہاں رہیں‘۔
انہوں نے مزیدکہا، وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گرد حملوں کےلئے استعمال نہ ہو۔ اوباما کے بقول’ ہم اکثر سنتے ہیں کہ القاعدہ اب پاکستان میں موجود ہے اور ہم افغانستان میں کیا کر رہے ہیں۔ القاعدہ کمزور ہو چکی ہے اور اس کے پاس کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہے، القاعدہ سے جو خطرہ ستمبر گیارہ کے حملوں سے قبل تھا، وہ اب نہیں رہا۔ تب انہیں طالبان کی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ افغانستان کے حالات دو یاپانچ سال میں بہتر ہونے والے نہیں۔ افغانستان کو ترقی کیلئے اپنے راستے کا تعین خود کرنا ہوگا۔ ہم مزید ایسے اقدامات نہیں کریں گے، جن سے افغانستان کے حالات میں بہتری نہ ہو۔ اس سلسے میں اگلے سال سے تبدیلی کا عمل شروع ہوگا‘۔
کینیڈا کے وزیر اعظم سٹیفن ہارپر نے صحافیوں کو بتایا کہ ان اجلاسوں کے دوران مظاہروں پر اُنہیں افسوس ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ ان اجلاسوں کے دوران مظاہرے دنیا بھر میں ایک مسئلہ ہیں۔انہوں نے کہا، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کینیڈا کی حکومت نے اس اجلاس کے موقع پر سیکیورٹی کے لئے اتنی خطیر رقم کیوں خرچ کی۔ یادرہے کہ جی ایٹ اور جی ٹوئنٹی کی میٹنگوں کے دوران سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے ایک ارب ڈالر سے زائد کے اخراجات پر کینیڈین حکومت کو عوامی سطح پر زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سٹیفن ہارپر نے مزید کہا، وہ پر امید ہیں کہ چین اپنی کرنسی کو زیادہ لچکدار بنانے کے وعدے پر عمل کرے گا۔ ادھر گذشتہ رات بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نےکینیڈا اور بھارت کے مابین تجارتی اور جوہری معاہدوں پر دستخط کر دئے۔
ان اجلاسوں کے دوران ہزاروں افراد نے ملازمتوں اور سماجی سلامتی کو لاحق خطرات کے سلسلے میں شدید احتجاج کیا اور شہر کے وسطی علاقے میں بینکوں کی توڑ پھوڑ کے علاوہ کئی گاڑیاں بھی نذرآتش کر دیں، جن میں پولیس کی گاڑیاں بھی شامل تھیں۔
ٹورانٹو پولیس نےاتوار کی رات گئے تک پانچ سو سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا ۔ان مظاہرین کی ایک بڑی تعداد کا تعلق فرانس سے تھا۔ ان میں سے کچھ افراد کی تحویل سے دھماکہ خیزمواد سے بھری بوتلیں بھی برآمد ہوئیں۔گرفتار کئے جانے والے مظاہرین کو کانفرنس کے قریب بنائی گئی "پنجرہ نما‘‘ عارضی جیل میں رکھا گیا۔
مظاہرین کی بڑی تعداد گرفتار ہونے والوں سے اظہار یکجہتی کے لئے جیل کے باہر مظاہرے کرتی رہی۔اس دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ رات دیر تک جاری رہا۔آخری اطلاعات آنے تک پانچ سو سے زائد افراد اس جیل میں بند تھے۔ سینکڑوں مظاہرین اس ہوٹل کی طرف بڑھ رہے تھے، جہاں جی ٹوِئنٹی کے سربراہان ٹہرے ہوئے تھے۔ ’بلیک بلاک‘ نامی تنظیم کےنقاب پوش گروہوں کو توڑ پھوڑ کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔
رپورٹ : محسن عباس / ٹورانٹو کینیڈا
ادارت: کشور مصطفیٰ