جرمن پا رلیمان میں پاکستان کی صورت حال پر خصوصی بحث
24 ستمبر 2008آج وفاقی جرمن پارلیمان میں گرین پارٹی کی درخواست پر پاکستان کے حالات پر خصوصی بحث کی گئی۔ پاکستانی سرزمین پر امریکی فوجی کارروائیوں کے تناظر میں اِس بحث کا عنوان رکھا گیا تھا: ’’پاکستان کا استحکام اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری‘‘۔
اِس بحث سے پہلے گرین پارٹی کے ناظم الامور فولکر بیک نے اِس بات کو ہدفِ تنقید بنایا تھا کہ فرانسیسی حکومت کے برعکس جرمن حکومت نے امریکی فوج کی جانب سے پاکستان کی حاکمیتِ اعلیٰ کی خلاف ورزیوں پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بیک کے مطابق اسلام آباد حکومت کی رضامندی کے بغیر پاکستانی علاقے کے اندر امریکی فوجی آپریشن تشویش ناک اور پاکستان میں استحکام کی کوششوں کے منافی ہیں۔
ایسے میں گرین پارٹی کا مطالبہ ہے کہ جرمن حکومت اور یورپی یونین پاکستان اور اُس خطے کے حوالے سے ایک جامع حکمتِ عملی تیار کریں۔ گرین پارٹی کی اُوتے کَوچی کا کہنا تھا: ’’پاکستانی سرزمین پر امریکی حملے پاکستان ہی نہیں، پورے خطے کو غیر مستحکم بنا رہے ہیں اور جرمنی کو بھی اِن حملوں کی ذمہ داری میں شریک ہونا پڑ رہا ہے۔‘‘
بنیادی طور پر ایران سے تعلق رکھنے والے اُمید نوری پور بھی گرین پارٹی کے رکن ہیں۔ اُنہوں نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا: ’’یہ امریکی فوجی کارروائیاں اسلام آباد میں مرکزی حکومت کو کمزور بنا رہی ہیں اور پاکستانی حکام پر عوام کے اعتماد کو مجروح کر رہی ہیں۔ یہ کارروائیاں دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہیں اور پورے خطے کی ترقی کو خطرے سے دوچار کر رہی ہیں۔‘‘
گرین پارٹی سمیت سبھی جماعتوں کے رہنماؤں نے پاکستان کے عوام اور وہاں کی جمہوری حکومت کو تمام تر مدد اور تعاون فراہم کئے جانے پر زور دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ تنازعات کو فوجی نہیں بلکہ سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کی کوششیں کی جانی چاہییں۔ کوچی نے پاکستان میں معزول ججوں کی بحالی کے لئے جاری مہم کے لئے بھی جرمنی کی بھرپور حمایت پر زور دیا۔
فری ڈیموکریٹک پارٹی کی اَیلکے ہوف کے خیال میں پاکستان میں صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں انقلاب لانے کے لئے جرمنی کو مکمل مدد فراہم کرنی چاہیے۔ مقررین نے پاکستان میں افراطِ زر کی 25 فیصد تک پہنچی ہوئی شرح اور بڑے پیمانے پر پائی جانے والی بے روزگاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خاص طور پر دیہی علاقوں کو ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے لئے زرعی اصلاحات متعارِف کروائی جانی چاہییں۔
خارجہ امور کی پارلیمانی کمیٹی کے کرسچین ڈیموکریٹک یونین CDU سے تعلق رکھنے والے چیئرمین Ruprecht Polenz نے کہا:’’اب تک ہماری ایک عادت سی رہی ہے کہ ہم افغانستان کی صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی پاکستان سے متعلق پالیسیاں وضع کرتے رہے ہیں۔ ضرورت اب اِس بات کی ہے کہ خود پاکستان کے حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ پالیسیاں بنائی جائیں کیونکہ پاکستان افغانستان سے بھی زیادہ اہم ہے۔‘‘
اُنہوں نے کہا، پاکستان اِس لئے اہم ہے کہ اُس کی 17 کروڑ کی آبادی روس جیسے ملک کے مقابلے میں بھی تین کروڑ زیادہ ہے اور ایک علاقائی اور ایٹمی طاقت کی حیثیت سے پاکستان تب بھی افغانستان کا ہمسایہ ہو گا، جب ISAF دَستے وہاں سے واپس چلے جائیں گے۔
کچھ مقررین نے پاکستان کی قومی اسمبلی میں عوام کو درپیش مسائل پر بحث مباحثے کی کوئی مستحکم روایت نہ ہونے پر افسوس اور تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستانی رہنما اپنے مسائل کے حل کے لئے ہمیشہ بیرونی دُنیا کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔
تمام رہنماؤں نے متفقہ طور پر اسلام آباد میریٹ ہوٹل پر بم دھماکے کی شدید مذمت کی اور اِس میں مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔