1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جرمن قونصل خانے پر حملہ‘ پاکستان ملوث، جرمن اخبار کا دعوٰی

20 نومبر 2016

ایک جرمن اخبار کے مطابق دس نومبر کو افغان شہر مزار شریف میں واقع جرمن قونصل خانے پر حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی۔

https://p.dw.com/p/2SxtB
Afghanistan Aufräumarbeiten nach Taliban-Angriff auf deutsches Konsulat
تصویر: Getty Images/AFP/F. Usyan

جرمن اخبار بلٹ آم زونٹاگ نے آج اتوار کو اپنی اشاعت میں لکھا ہے کہ دس نومبر کو مزار شریف میں جرمن قونصل خانے پر حملے کی تیاریاں چھ ماہ سے جاری تھیں اور یہ سب کچھ پاکستان میں ہوا۔ اس اخبارکی یہ رپورٹ سفارتی ذرائع سے ملنے والی اُن اطلاعات پر مبنی ہے، جو اُنہیں زیر حراست حملہ آور سے ملی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق زیر حراست حملہ آور نے پولیس کے سامنے یہ تسلیم کیا ہے کہ اُسے دیگر چھ افراد کے ساتھ اِس حملے کے لیے طالبان نے پشاور میں بھرتی کیا تھا۔ اس کے بعد انہیں دہشت گردی کی تربیت مہیا کی گئی تھی اور اِس دوران اُنہیں بارودی مواد اور خودکار ہتھیار استعمال کرنے کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

Afghanistan Explosion in der Nähe des deutschen Konsulatsbüros in Mazar-i-Sharif
تصویر: Reuters/A. Usyan

دس نومبر کے اس حملے چھ افراد ہلاک اور ایک سو تیس سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ اس دوران جرمن قونصل خانے کی عمارت بھی جزوی طور پر تباہ ہو گئی تھی۔ تاہم عملے میں شامل تمام جرمن شہری محفوظ رہے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ زندہ بچ جانے والے اس حملہ آور کو اس واقعے کے چند گھنٹوں بعد افغان پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ اس کا تعلق مشرقی افغان صوبے لغمان سے ہے تاہم اس حملے سے قبل وہ کابل میں رہتارہا ہے۔

طالبان کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ مغربی دفاعی اتحاد نٹیو کی اسی ہفتے تین نومبر کو کی جانے والی اُس فضائی کارروائی کا بدلہ ہے، جس میں تیس سے زائد عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔

دریں اثناء جرمن اخبار کی اس رپورٹ اور طالبان کی جانب سے مہیا کی جانے والی تفصیلات ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ حملے کی بعد کی جانے والی امدادی کارروائیوں میں جرمن فوجیوں کی اُس سے زیادہ تعداد نے حصہ لیا، جتنا کہ ذرائع ابلاغ میں بتایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ خصوصی جرمن دستوں نے قونصل خانے کی عمارت میں داخل کر عملے کو بحافظت باہر نکالا تھا۔ بلڈ آم زونٹاگ نے ایک عینی شاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ بعد ازاں خصوصی دستے میں شامل اہلکاروں نے اس عمارت میں داخل ہو کر تلاشی لی اور حساس دستاویزات کو ضائع کیا۔ اخبار کے مطابق ایسے کسی حملے کے بعد اکثر اس طرح کے اقدامات حفظ ماتقدم کے طور پر  کیے جاتے ہیں۔