جرمنی: سترہ سالہ لڑکی تاوان کے لیے اغوا
17 اگست 2015پولیس نے پیر 17 اگست کو بتایا کہ ہائی اسکول کی طالبہ آنیلی ماری آر چار روز پہلے جمعرات کو شام ساڑھے سات بجے کے لگ بھگ اپنے کتے کو ٹہلانے کے لیے گھر سے نکلی تھی اور لوٹ کر نہیں آئی۔ دریں اثناء وہ کُتا گھر واپس پہنچ چکا ہے، جسے ٹہلانے کے لیے یہ سترہ سالہ لڑکی گھر سے باہر نکلی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ایک جاسوس کتے نے اس لڑکی کی تلاش کے دوران ایک قریبی زرعی فارم تک پولیس کی رہنمائی کی تھی تاہم گزشتہ جمعے کو اس فارم کی تلاشی کے دوران پولیس کو کچھ بھی نہ مل سکا۔
پولیس نے بتایا ہے کہ درجنوں اہلکار اس لڑکی کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں اور شہریوں کی جانب سے کوئی پچیس مختلف شواہد بھی ملے ہیں تاہم ابھی تک اس لڑکی تک پہنچنے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس لڑکی کے والدین کا ذاتی کاروبار ہے اور گزشتہ ویک اَینڈ پر اُنہوں نے ایک کھلے خط میں اغوا کنندگان کو یقین دلایا تھا کہ ’ہم آپ کے تمام مطالبات پورے کریں گے تاکہ ہم اپنی بچی کو پھر سے اپنے بازؤں میں بھر سکیں۔‘‘
جرمن پریس ایجنسی ڈی پی اے نے والدین کے کھلے خط کے مندرجات کچھ یوں بیان کیے ہیں:’’آنیلی! ہم تمہاری کمی محسوس کرتے ہیں۔ ہم سمجھو تمہارے ساتھ ہیں۔ جو کوئی بھی ہماری بیٹی کی تلاش کے سلسلے میں مدد دے سکتا ہے، اُس سے ہماری درخواست ہے کہ وہ ایسا ضرور کرے۔‘‘
اس خط میں ذرائع ابلاغ سے بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ آنیلی کے اہلِ خانہ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ آنیلی کے گھر والوں کو ایک بہت بڑی آزمائش کا سامنا ہے اور وہ اپنی ذاتی زندگی کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔
پولیس کے تفتیشی حکام بھی معاملے کی نزاکت کے پیشِ نظر زیادہ تفصیلات بتانے سے گریز کر رہے ہیں۔ تفتیشی افسران کی مرکزی جرمن تنظیم کے نائب چیئرمین اُلف کیوش کے مطابق تفتیش میں عام لوگوں کی شمولیت سے معاملہ آسان نہیں ہوتا بلکہ تفتیش مزید مشکل ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتِ حال میں پولیس کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہیے اور ہر وہ قدم اٹھایاجانا چاہیے، جس سے اس لڑکی کی زندگی بچائی جا سکتی ہو۔