ترک وزیر اعظم تہران میں، باہمی اختلافات کے خاتمے کی کوششیں
5 مارچ 2016نیوز ایجنسی روئٹرز نے ایرانی دارالحکومت تہران سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ پانچ سال سے جاری شامی خانہ جنگی میں ایران اور اُس کے ساتھ ساتھ روس بھی شامی صدر بشارالاسد کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور اُسے فوجی اور مالی امداد فراہم کرتے رہے ہیں جبکہ ترکی اسد پر سب سے زیادہ تنقید کرنے والا ملک ہے اور شام میں اسد مخالف فورسز کا ساتھ دے رہا ہے۔
ہفتے کے روز تہران میں نائب ایرانی صدر اسحاق جہانگیری کے ساتھ کھڑے احمد داؤد اولُو نے کہا:’’ہو سکتا ہے کہ ہمارے خیالات مختلف ہوں لیکن ہم تاریخ یا جغرافیے کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ ترکی اور ایران کے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم کوئی مشترکہ امکانات وضع کریں تاکہ ہم اپنے خطّے میں بھائی بھائی کی آپس کی لڑائی کو اور نسلی و فرقہ ورانہ تنازعات کو ختم کر سکیں۔‘‘
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے سعودی عرب کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات ہیں، جس نے تہران حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر رکھے ہیں اور جسے لبنان، شام اور یمن میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش لاحق ہے۔
ترکی کے این ٹی وی چینل اور ایران کے پریس ٹی وی سے نشر ہونے والے ایک بیان میں نائب ایرانی صدر جہانگیری کا کہنا تھا:’’کچھ علاقائی معاملات پر ہمارے درمیان اختلافات ضرور ہیں لیکن خطّے میں استحکام کے لیے ہم ان اختلافات پر قابو پانے کا پختہ عزم رکھتے ہیں۔ علاقائی سلامتی اور استحکام سے ایران اور ترکی دونوں کو فائدہ ہو گا۔‘‘
سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں شام کے موضوع پر امن مذاکرات کی مجوزہ بحالی سے چند روز پہلے دیے جانے والے ان بیانات سے یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ دونوں ممالک جنوری میں ایران کے خلاف ختم ہو جانے والی بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں کے تجارتی ثمرات بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
داؤد اولُو کے مطابق ان پابندیوں کے خاتمے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک اپنے تیس ارب ڈالر سالانہ کے سابقہ تجارتی ہدف کو آسانی کے ساتھ اوپر لے جا سکتے ہیں۔ ترک دفتر شماریات کے مطابق سن 2015ء میں ایران اور ترکی کے مابین تجارت کا حجم 9.7 ارب ڈالر رہا۔
ترک دفترِ خارجہ کے مطابق ترکی ایران کو زیادہ تر مشینری، موٹر گاڑیاں اور لوہے اور فولاد کی مصنوعات برآمد کرتا ہے جبکہ ترکی کی جانب ایرانی برآمدات کا نوّے فیصد معدنی تیل اور گیس پر مشتمل ہوتا ہے۔ اپنے اس دورہٴ ایران کے موقع پر ترک وزیر اعظم احمد داؤد اولُو نے یہ بھی کہا کہ ایران کی یورپ کے لیے توانائی کی برآمدات ترکی ہی کے راستے آگے جایا کریں گی۔