1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یمن میں خونریزی بند ہونی چاہیے‘،ایردوآن اور روحانی کا اتفاق

امجد علی7 اپریل 2015

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ایک روزہ دورہٴ ایران کے موقع پر اپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی کے ساتھ تجارتی تعلقات کے فروغ پر اتفاق کیا تاہم دونوں رہنما یمن کے تنازعے میں باہمی اختلافات پر کھل کر بات کرنے سے گریز کرتے رہے۔

https://p.dw.com/p/1F3ic
Iran Türkei Staatsbesuch Erdogan
ترک صدر رجب طیب ایردوآن اپنے ایک روزہ دورہٴ ایران کے دوران اپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئےتصویر: Atta Kenare/AFP/Getty Images

ایردوآن کا یہ دورہ ایک ایسے وقت پر عمل میں آ رہا ہے، جب ترکی اور اُس کے ہمسایہ ملک ایران کے درمیان تعلقات شام کے حوالے سے اختلافات کی وجہ سے پہلے ہی سرد مہری کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ اب یمنی تنازعے کی وجہ سے بھی ترک ایران تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں کیونکہ دونوں ملک دو مختلف فریقوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

ایردوآن الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ایران خطّے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔ کچھ ایرانی اراکینِ پارلیمان نے تہران حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ ایردوآن کا دورہ منسوخ کر دے جبکہ ایک ایرانی سیاستدان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ایردوآن عثمانی سلطنت کا احیاء چاہتے ہیں۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کا البتہ کہنا یہ ہے کہ چونکہ دونوں ملکوں کی اقتصادیات ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں، اس لیے دونوں کے درمیان اختلافِ رائے بھی حدود کے اندر ہی رہے گا۔ واضح رہے کہ ترکی کو ایرانی گیس کی ضرورت ہے جبکہ بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے شدید دباؤ میں آئے ہوئے ایران کو برآمدی منڈیوں کی اشد ضرورت ہے۔

Iran Türkei Staatsbesuch Erdogan
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے تہران پہنچنے پر اُن کا تمام تر سرکاری اعزازات کے ساتھ استقبال کیا جا رہا ہےتصویر: Atta Kenare/AFP/Getty Images

منگل سات اپریل کو ترک صدر ایردوآن اور اُن کے ایرانی ہم منصب روحانی نے تہران میں آٹھ سمجھوتوں پر دستخط کیے اور اس بات پر زور دیتے رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اشتراکِ عمل کیوں اس قدر ضروری ہے۔ ایردوآن نے کہا کہ دونوں ملک باہمی تجارت کے حجم کو تیس ارب ڈالر کے ہدف تک لے جانے کی منزل سے ابھی بہت دور ہیں۔ واضح رہے کہ 2014ء میں ترکی اور ایران کی باہمی تجارت کا حجم چَودہ ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔

ایردوآن نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ ترکی اور ایران کو باہمی تجارت ڈالروں یا یوروز میں کرنے کی بجائے اپنی ملکی کرنسیوں میں شروع کر دینی چاہیے تاکہ ان غیر ملکی کرنسیوں میں تبادلے کی شرحوں میں اتار چڑھاؤ کے اثرات سے بچا جا سکے۔

ایردوآن اور روحانی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا، جس کی کارروائی ترک ٹیلی وژن پر براہِ راست دکھائی گئی۔ اس پریس کانفرنس کے دوران دونوں رہنما علاقائی کشیدگی کو زیادہ اہمیت دینے سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا رہے اور اُنہوں نے یمنی تنازعے کے حل کے لیے کسی طرح کی ٹھوس تجاویز کا ذکر نہیں کیا۔

ایردوآن نے کہا:’’مَیں فرقوں کو نہیں دیکھتا۔ مجھے کسی کے شیعہ یا سنّی ہونے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ میں مسلمانوں کو (بحیثیتِ مجموعی) دیکھتا ہوں۔ ہمیں اس خونریزی اور موت (کے کھیل) کو روکنا ہو گا۔‘‘

روئٹرز نے اپنے جائزے میں لکھا ہے کہ ایردوآن، جو ایک کٹر سنی العقیدہ مسلمان ہیں، یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی قیادت میں جاری فوجی مہم کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس تہران حکومت شیعہ حوثی باغیوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔

اس پریس کانفرنس میں ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا:’’ہمارے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ یمن میں جاری جنگ اور خونریزی جلد از جلد ختم ہونی چاہیے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید