1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تارکین وطن کی ’گلابی جرمن‘ مسکراہٹوں کی وجہ بھی

20 جولائی 2018

جرمنی میں موجود شامی مہاجرین جو جرمن زبان سیکھنے اور بولنے میں مصروف نظر آتے ہیں، کبھی کبھی کسی جرمن لفظ کو درست ادا نہیں کر پاتے اور خود ہی کھلکھلا کر ہنسنے لگتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/31oCt
Deutschland Asylbewerber in Berlin Symbolbild
تصویر: Getty Images/S. Gallup

جرمن دارالحکومت برلن کے مشرقی حصےمیں مہاجرین کے ایک کمیونٹی سینٹر کے استقبالیہ پر بہت رش ہے۔ بہت سے شامی مہاجرین ہیں، جن کی مادری زبان تو عربی ہے، مگر یہ افراد اس استقبالیہ پر جرمن زبان بول کر اپنی درستی کرتے میں مصروف ہوتے ہیں، تاہم کبھی کبھی انہیں کسی ایسے لفظ سے واسطہ پڑ جاتا ہے، جسے بولنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ خود بھی قہقہے لگا کر ہنسنا شروع کر دیتے ہیں، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ جرمن میں کسی اور زبان کا لفظ بول دیتے ہیں اور پھر خود ہی چونک جاتے ہیں۔

مہاجرین پر اخراجات، جرمنی کو 4.5 بلین یورو ملیں گے

مہاجر بچوں کے لیے جرمن اقدار اور زبان کے نئے اسباق کا منصوبہ

جب یہ مہاجر جرمن زبان سیکھتے اور بولنے کی مشق کرتے ہیں، دوسری جانب ان کے بچوں کو اضافی ٹیوشن کے ذریعے ’بیک آن ٹریک سیریا‘ نامی مرکز میں تربیت دی جاتی ہے۔ ’بیک آن ٹریک سیریا‘ برلن کے مشرقی حصے میں ایک سماجی بہبود کا اسکول ہے، جہاں ان شامی بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے، جن کی زندگی کے کئی برس جنگ کی وجہ سے تعلیم سے دوری کی نذر ہو گئے اور اب یہ اسکول ان بچوں کو پڑھا کر عام بچوں کے برابر لانے کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔

شامی شہر حلب سے تعلق رکھنے والی شیرین سیدو ریشو کے مطابق، ’’میں اپنے بچوں کے حوالے سے بے حد خوف زدہ تھی، میری بیٹی وہاں اسکول جاتی تھی جب کہ ہر طرف بم بھی گرتے رہتے تھے۔‘‘

یہ خاتون دو برس قبل اپنے دو بچوں کے ہم راہ جرمنی منتقل ہو گئی تھیں اور اب ان کے دونوں بچے اسی مرکز میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سیدو ریشو نے کہا، ’’بچے یہاں آتے ہیں اور کھیلتے ہیں۔ ان کے نئے دوست ہیں۔ سو یہ مرکز صرف پڑھائی لکھائی ہی کی جگہ نہیں۔ پھر مجھے یہ بھی اچھا لگتا ہے کہ ہم یہاں بیٹھتے ہیں اور آپس میں جرمن زبان میں بات کرتے ہیں۔‘‘

’جرمن زبان بھی سیکھی پھر بھی ڈی پورٹ کر دیا جاؤں گا‘

جرمن میں سن 2014 کے بعد قریب ایک اعشاریہ چھ ملین مہاجرین پہنچے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مشرقی وسطیٰ اور افریقہ سے ہے۔ اسی تناظر میں جرمنی میں سیاسی طور پر بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجرین دوست پالیسیوں کی وجہ سے ان کی قدامت پسند جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کو عوامی سطح پر تنقید کا سامنا بھی ہے۔ گزشتہ برس ستمبر میں ہونے والے عام انتخابات میں اس جماعت کو ماضی کے مقابلے میں کہیں کم نشستیں ملیں تھی۔ اسی تناظر میں اب جرمنی میں ایک وسیع تر اتحاد پر مبنی حکومت قائم ہے، جس میں میرکل کی قدامت پسند جماعت سی ڈی یو، باویریا صوبے میں اس کی سسٹر پارٹی سی ایس یو اور ملک کی دوسری سب سے بڑی جماعت ایس پی ڈی نے مل کر حکومت قائم کر رکھی ہے۔ اس بحران کی وجہ سے جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی مہاجرین اور مسلم مخالف جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی AfD ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری ہے۔

حکومت کی کوشش ہے کہ ملک میں موجود مہاجرین کو معاشرتی دھارے میں بہتر انداز سے ضم کیا جا سکے اور اس سلسلے میں حکومتی مراکز اور کاوشوں کے ساتھ ساتھ متعدد این جی اوز بھی مختلف شعبوں میں ان مہاجرین کو معاونت اور تربیت فراہم کر رہی ہیں۔

ع ت، ص ح (روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید