برقع طالبان باغیوں کے لئے نہایت کار آمد
29 جولائی 2010’میجر جنرل جان کیمپ بل‘ کا کہنا ہے کہ ملک میں ایک خاتون خود کُش حملہ آور کی طرف سے ہونے والے حملے کے بعد مرد عسکریت پسندوں کو یہ نئی چال سُوجھی ہے۔ اس سے قبل جنوبی افغانستان میں مرد طالبان خواتین کا بھیس بدل کر اور سر سے پیر تک خود کو برقعے میں چھپا کردہشت گردانہ حملوں کی کوششیں کر چکے ہیں، جن میں مارچ میں ہونے والا ایک ناکام خود کُش حملہ بھی شامل ہے۔ تاہم انہوں نے اب تک مشرقی افغانستان میں یہ ترکیب نہیں آزمائی تھی۔
پینٹاگون کے ساتھ سیٹلائٹ کے ذریعے رابطے میں ’میجر جنرل جان کیمپ بل‘ نے رپورٹروں سے کہا: ’ گزشتہ چند سالوں کے دوران طالبان جنگجوؤں کی حکمت عملی میں ایک تبدیلی آئی ہے۔ اب برقع پوش مرد حملہ آورگاؤں گاؤں پھرتے نظر آتے ہیں، یہ ہم نے پہلے نہیں دیکھا‘۔
امریکہ اور نیٹو فوجی طالبان باغیوں کے تعاقب میں عموماً خواتین کو نظر انداز کرتے ہیں۔ تاہم 22 جون کو مشرقی صوبے کونڑ میں ایک خاتون کے خود کُش حملےکے بعد سے افغانستان میں متعین غیر ملکی افواج کی حکمت عملی میں بھی تبدیلی متوقع ہے۔ اس حملے کے نتیجے میں 10 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ کونڑ کے اُس خود کُش بم حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے طالبان نے کہا تھا کہ وہ حملہ ’حلیما ‘ نامی ایک افغان خاتون نے کیا تھا۔
گزشتہ 9 برسوں کے دوران افغانستان میں تقریباً 450 خود کُش بم حملے ہو چُکے ہیں۔ تاہم ’میجر جنرل جان کیمپ بل‘ کے مطابق کسی خاتون کی طرف سے پہلی مرتبہ ایسا حملہ جون میں کیا گیا۔ ’میجر جنرل جان کیمپ بل‘ مشرقی افغانستان کے علاقائی کمان کے نگراں ہیں۔ کابل کے ارد گرد قائم 14 افغان صوبوں پر مشتمل اس علاقے کا رقبہ 450 کلومیٹر ہے اور یہ پاکستان کی سرحد سے متصل ہے۔ امریکی جنرل کے مطابق سال رواں کی پہلی ششماہی میں اس علاقے میں دہشت گردانہ حملوں میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ’میجر جنرل جان کیمپ بل‘ نے کہا ہے کہ نیٹو اور امریکی فوجی مزید حملوں کی توقع کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:’ ہمیں معلوم ہے اور ہم امید کر رہے ہیں کہ حالیہ موسم گرما ہمارے لئے بہت مشکل ہوگا‘۔
رپورٹ:کشور مصطفٰی
ادارت: افسر اعوان