1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی رہائی

امتیاز گل ، اسلام آباد15 اپریل 2009

لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز پر اغواء، اقدام قتل اور بغاوت کے 27 مختلف مقدمات تھے جن میں سے 25 میں انہیں پہلے ہی ضمانت مل چکی تھی۔جبکہ ایک مقدمے میں انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/HXhe
مولانا عبدلعزیزتقریبا دو سال سے حکومتی حراست میں ہیںتصویر: AP

بدھ کے روز سپریم کورٹ نے انہیں لال مسجد سے ملحقہ چلڈرن لائبریری پر قبضے کے آخری مقدمے میں بھی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا ۔ عدالت نے مولانا عبدالعزیز کے وکیل کو حکم دیا ہے کہ وہ دو لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروائیں۔

Pakistan, Rote Moschee, Islamabad
لال مسجد میں عسکریت پسندوں کے خلاف ایک بڑی فوجی کارروائی کی گئی تھیتصویر: AP

وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق مولانا عبدالعزیز کی رہائی حکومت اور لال مسجد انتظامیہ کے درمیان اس خفیہ مفاہمت کے بعد ممکن ہو سکی ہے جس کے تحت مولانا رہائی کے بعد اشتعال انگیز تقاریر اور حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ نہیں کریں گے۔ تاہم مولانا عزیز کے وکیل شوکت صدیقی نے صحافیوں کو بتایا کہ عدالت نے ناکافی ثبوت کی بنیاد پر ان کے مؤکل کی رہائی کا حکم دیا ہے۔

’’بینچ نے مولانا عبدالعزیز کی ضمانت منظور کر لی ہے اور عدالت نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ اس کیس میں مولانا عبدالعزیز کے خلاف کوئی ایسا میٹریل نہیں ہے جس کی بنیاد پر ان کو ضمانت پر رہا نہ کیا جا سکے۔‘‘

Pakistan, Vorbereitungen auf den Sturm der Roten Moschee
فوجی آپریشن میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھےتصویر: AP

خیال رہے کہ مولانا عبدالعزیز کو خفیہ ایجنسیوں نے جولائی2007ء میں لال مسجد آپریشن کے دوران اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ برقعہ پہن کر فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم سوات میں نظام عدل ریگولیشن کے باقاعدہ نفاذ کے موقع پر مولانا عبدالعزیز کی رہائی کو معنی خیز قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اگرچہ سوات کے طالبان اور صوبائی حکومت نے نظام عدل کے نفاذ کے موقع پر خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا ہے تاہم امریکی حکومت اور پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے سینیٹر جان کیری نے سوات امن معاہدے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے ایک ترجمان رابرٹ گبز نے بھی سوات معاہدے کو حقوق انسانی اور جمہوریت کے اصولوں سے متصادم قرار دیا ہے تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کے زیر انتظام نظام عدل اور صوبائی حکومت کے زیر انتظام قانونی نظام کس طرح اکٹھے چل پائیں گے۔