برطانیہ ’جنگل‘ کے لاوارث بچوں کو قبول کرے: فرانس
30 اکتوبر 2016فرانسیسی ساحلی شہر کَیلے کے قریب واقع جنگل نامی مہاجر بستی سے تارکینِ وطن کے انخلاء پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے اِس عزم کا اظہار بھی کیا کہ اب فرانس کے لیے مہاجرین کی مزید کسی عارضی بستی کا قیام نا قابلِ قبول ہو گا۔
صدر اولانڈ کا کہنا تھا کہ جنگل کیمپ کے وہ بچے جو کسی سرپرست کے بغیر کیمپ میں مقیم تھے، انہیں ایک کنٹینر کیمپ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ اِس کنٹینر کیمپ سے اِن تنہا بچوں کو فرانس بھر میں مختلف مراکز میں اِس امید کے ساتھ روانہ کیا جائے گا کہ بالآخر برطانیہ انہیں قبول کر لے گا۔
فرانسیسی صدر اولانڈ نے مغربی فرانس میں ڈوئےلا فونتَینے کے مقام پر مہاجرین کے لیے بنائے گئے ایک استقبالیہ مرکز کے دورے کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا،’’ ہمیں تارکینِ وطن کے مسئلے کا سامنا ہے، ہم نے جنگل کے مہاجر کیمپ کو برداشت نہیں کیا اور نہ ہی فرانس میں ایسے کسی اور کیمپ کو برداشت کیا جائے گا۔‘‘
فرانس کے صدر کا مزید کہنا تھا کہ کَیلے میں پندرہ سو لاوارث نا بالغ بچے باقی رہ گئے ہیں جنہیں جلد دیگر استقبالیہ مراکز میں بھیج دیا جائے گا۔ اولانڈ کا کہنا تھا کہ انہوں نے برطانوی وزیرِ اعظم ٹیریزا مے سے اِس امر کو یقینی بنانے کو کہا ہے کہ اِن بچوں کو بر طانوی اہلکار استقبالیہ مراکز سے لے کر برطانیہ پہنچانے تک اپنا کردار ادا کریں۔
دوسری جانب برطانوی حکومت کی ایک ترجمان نے اِس حوالے سے حکومتی موقف بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ نے فرانس کے ساتھ کَیلے کے بچوں کی حفاظت کے حوالے سے جو معاہدہ کیا ہے وہ اُس پر قائم ہے اور جنگل کیمپ سے برطانیہ منتقلی کے اہل بچوں کے معاملے کو جلد از جلد مکمل کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ رواں ماہ کے وسط سے برطانوی حُکومت نے جنگل کیمپ کے ایسے 274 بچوں کو اپنے ملک آنے کی اجازت دی تھی جن کے خاندان پہلے سے ہی برطانیہ میں مقیم ہیں۔
جنگل کے نام سے مشہور کَیلے کی مہاجر بستی میں قریب چھ سے آٹھ ہزار مہاجرین مقیم تھے۔ اِن میں سے زیادہ تر کا تعلق سوڈان، افغانستان، اور اریٹیریا سے تھا۔ شمالی فرانس میں اس مہاجر بستی میں وہ تارکینِ وطن آباد تھے، جو چینل سرنگ کے ذریعے فرانس سے برطانیہ پہنچنے کی کوششوں میں تھے۔
ان افراد کی جانب سے ٹرکوں اور ٹرینوں کی بوگیوں میں چھپ کر غیرقانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہونے کی کوششیں تواتر سے کی جاتی رہی ہیں۔ ان کوششوں میں متعدد مہاجرین اپنی زندگی کی بازی بھی ہار گئے تھے۔