برطانوی وزیرِ اعظم براؤن پر اُن کی جماعت کی تنقید
9 جون 2009پیر کے روز وزیرِ اعظم براؤن کو لیبر پارٹی کے بعض اراکین کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حد تک کہ برطانوی وزیرِ اعظم براؤن کو اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرنا پڑا۔ حکمران لیبر پارٹی کے گیارہ وزراء حالیہ کچھ عرصے میں اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے ہیں اور گورڈن براؤن پر قبل از وقت انتخابات کرانے اور مستعفی ہونے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ دباؤ نہ صرف یہ کہ حزب مخالف جماعتوں کی طرف سے سامنے آ رہا ہے بلکہ خود حکمران جماعت میں بھی گورڈن براؤن کے ناقدین کی کمی نہیں ہے۔
اپنے اوپر تنقید کے جواب میں پیر کے روز گورڈن براؤن نے کہا کہ لیبر پارٹی کو اس بحران کے وقت اتحاد کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بحران کا مقابلہ میدان چھوڑ کر نہیں بلکہ صورتِ حال کا سامنا کر کے کیا جاتا ہے۔
یورپی پارلیمان کے اتوار کے روز اختتام پذیر ہونے والے انتخابات میں لیبر پارٹی نے انتہائی مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور وہ تیسرے نمبر پر رہی۔ برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی اور انڈیپینڈنس پارٹی پہلے اور دوسرے نمبر پر رہیں۔ اس صورتِ حال نے گورڈن براؤن کا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔
پیر کے روز ہونے والے لیبر پارٹی کے اجلاس میں وزیرِ داخلہ چارلس کلارک نے وزیرِ اعظم براؤن پر تنقید کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ تاہم یہ بھی اطلاعات ہیں کہ لیبر پارٹی میں اب بھی ایسے اراکین کی کمی نہیں، جو براؤن کی حمایت کر رہے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق لیبر پارٹی کو دو ہزار دس کے وسط میں ہونے والے عام انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جائزوں کے مطابق کنزرویٹو جماعت کے قائد ڈیوڈ کیمرون کو برطانیہ کےعوام کی واضح حمایت حاصل ہے جب کہ باون فیصد افراد چاہتے ہیں کہ براؤن اپنے عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہو جائیں۔ اس حوالے سے آنے والے چند روز برطانوی وزیرِ اعظم براؤن کے مستقبل کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل قرار دئے جا رہے ہیں۔