بحیرہٴ جنوبی چین: اپنے خلاف فیصلہ آنے پر چین سخت برہم
13 جولائی 2016چین نے ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ عدالت PAC یعنی ’پیرمانَینٹ کورٹ آف آربٹریشن‘ کی طرف سے منگل کے اُس فیصلے پر اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے، جس میں غیر متوقع طور پر بھرپور انداز میں بحیرہٴ جنوبی چین پر چین کے ملکیتی دعووں کو رَد کیا گیا تھا۔ اس عدالت نے یہ فیصلہ معدنی خزانوں سے مالا مال اس سمندری علاقے پر ملکیتی حقوق کے حوالے سے چین کے ایک حریف فلپائن کی جانب سے دی جانے والی درخواست پر سنایا تھا۔
اپنے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے چین نے ایک بار پھر اس امر پر اصرار کیا ہے کہ یہ سمندری علاقہ تاریخی اعتبار سے ہمیشہ چین کا حصہ رہا ہے اور چینی ماہی گیر گزشتہ کئی صدیوں سے ان پانیوں میں ماہی گیری کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ساتھ ہی چین نے ریاست ہائے متحدہ امریکا اور دیگر فریق ممالک کو واضح الفاظ میں خبردار بھی کیا ہے۔
نائب چینی وزیر خارجہ لیو ژنمن نے بیجنگ میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے دی ہیگ کی بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کو کاغذ کا ضیاع قرار دیتے ہوئے کہا: ’’بحیرہٴ جنوبی چین کو جنگ کے سرچشمے میں نہ بدلو۔ چین بحیرہٴ جنوبی چین کو امن، دوستی اور تعاون کے سمندر میں بدل دینے کا عزم رکھتا ہے۔‘‘
لیو ژنمن نے کہا کہ چین اس سمندر کے اوپر فضاؤں میں ایک ایئر ڈیفنس آئیڈینٹیفیکیشن زون (ADIZ) بھی قائم کرنے کا ’حق‘ رکھتا ہے، جس کی وساطت سے چین کو اس سمندری علاقے میں پرواز کرنے والے غیر ملکی طیاروں کے خلاف فوجی اتھارٹی حاصل ہو جائے گی۔
چین نے 2013ء میں اسی طرح کا ایک زون بحیرہٴ مشرقی چین میں بھی قائم کیا تھا، جس پر جاپان، امریکا اور اُس کے اتحادی سخت ناراض ہوئے تھے۔ آیا اسی طرح کا ایک زون بحیرہٴ جنوبی چین میں بھی قائم کیا جائے گا، لیو ژنمن کے مطابق اس کا انحصار چین کو درپیش خطرات کی شدت پر ہو گا: ’’ہمیں امید ہے کہ مختلف ممالک چین کو بلیک میل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔‘‘
امریکا میں چینی سفیر سُوے تیئن کائی کا لب و لہجہ زیادہ دو ٹوک تھا: ’’اس عدالتی فیصلے کے نتیجے میں تنازعات اور محاذ آرائی میں بھی مزید شدت آ جائے گی۔‘‘
چین نے 1940ء کے عشرے میں ایک نقشے میں پہلی بار بحیرہٴ جنوبی چین پر ملکیتی دعوے کیے تھے جبکہ اس سمندر کے مختلف حصوں پر ساتھ ساتھ واقع دیگر ممالک یعنی فلپائن، ویت نام، ملائیشیا، برونائی اور تائیوان بھی اپنی اپنی ملکیت کے دعوے کرتے ہیں۔