’بحیرہ جنوبی چین میں جو چاہیں کریں گے‘، امریکا کو چینی جواب
31 مئی 2015ایشیا اور بحرالکاہل کے ملکوں کے نمائندوں کا یہ سالانہ اجلاس اتوار کی دوپہر کو سنگاپور کے شانگریلا ہوٹل میں اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ سب سے پہلے اس سمٹ کا انعقاد سن 2002 میں سنگاپور کے اسی ہوٹل میں ہوا تھا اور اسی مناسبت سے اسے شانگریلا ڈائیلاگ بھی کہا جاتا ہے۔ اس بار اپنی نوعیت کے اس چودہویں اجلاس میں امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر سمیت دنیا کے چھبیس ملکوں کے وزرائے دفاع اور سرکردہ فوجی افسران نے شرکت کی۔
اتوار کو آخری روز کے سیشن میں چین نے ان امریکی مطالبات کو مسترد کر دیا کہ چین کو بحیرہٴ جنوبی چین میں مصنوعی طریقے سے جزائر کے رقبے کو وسعت دینے کا کام روک دینا چاہیے۔ چینی ایڈ مرل سُن جِیانگُوؤ نے، جو پیپلز لبریشن آرمی میں ڈپٹی چیف آف جنرل سٹاف ڈیپارٹمنٹ ہیں، کہا کہ چین محض اپنی علاقائی حاکمیت کو بروئے کار لا رہا ہے اور یہ کہ بحیرہٴ جنوبی چین میں حالات مجموعی طور پر پُر امن اور مستحکم ہیں۔
ایڈ مرل سُن جِیانگُوؤ نے کہا کہ چین نے بحیرہٴ جنوبی چین کے کچھ جزائر کے رقبے کو مصنوعی طریقے سے محض اس لیے وسعت دی ہے تاکہ ان جزائر کی حالت مستحکم اور وہاں متعینہ چینی عملے کی زندگی بہتر بنائی جا سکے۔ اُنہں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ان اقدامات کا مقصد یہ بھی ہے کہ چین آئندہ سمندروں میں ہنگامی حالات کی صورت میں تلاش اور امدادی آپریشنز کے سسلسلے میں اپنی بین الاقوامی ذمے داریاں بہتر طریقے سے انجام دے سکے۔ اُنہوں نے کہا کہ مصنوعی طریقے سے وسیع کیے جانے والے یہ جزائر بحری حیات پر سائنسی تحقیق، آب و ہوا کے مشاہدے اور ماحولیاتی تحفظ وغیرہ کے سلسلے میں بھی مدد دیں گے۔
چین کا موقف یہ ہے کہ تقریباً پورا بحیرہٴ جنوبی چین اُس کی حاکمیت اعلیٰ کے دائرے میں آتا ہے۔ دنیا بھر کے بحری جہازوں کے لیے بحیرہٴ جنوبی چین ایک اہم آبی گزرگاہ ہے، جس کی تہہ میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہونے کا بھی قوی امکان ہے۔ تاہم خطّے کے دیگر ممالک بھی اس سمندر پر اپنا حق جتاتے ہیں اور چین پر توسیع پسندی کا الزام عائد کرتے ہیں۔
ابھی ایک روز قبل اسی سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے مطالبہ کیا تھا کہ بحیرہٴ جنوبی چین میں ملکیت کے دعوے کرنے والے تمام ممالک کو وہاں موجود جزائر کے رقبے کو مصنوعی طریقے سے وسعت دینے کا عمل فوری طور پر روک دینا چاہیے۔ کارٹر نے یہ بھی کہا تھا کہ ان متنازعہ پانیوں میں چین جس طرزِ عمل کا مظاہرہ کر رہا ہے، وہ بین الاقوامی اصولوں اور معیارات کے منافی ہے اور یہ کہ امریکا اس سمندر میں فوجی موجودگی میں مزید اضافے کی مخالفت کرتا ہے۔
ایشٹن کارٹر نے کہا تھا کہ ملکیت کے دعوے کرنے والے خطّے کے دیگر ممالک نے بھی اس سمندر میں مختلف سائز کے فوجی اڈے یا مراکز تعمیر کیے ہیں لیکن چین کی سرگرمیاں ان تمام ممالک کی مجموعی سرگرمیوں سے بھی کہیں زیادہ ہیں، جس نے صرف ڈیڑھ برس کے اندر اندر مصنوعی طریقے سے ان جزائر کے رقبے میں دو ہزار ایکڑ کا اضافہ کیا ہے۔
رواں مہینے چینی فوج نے انتہائی متنازعہ سپریٹلی جزائر کے قریب امریکی نیوی کے ایک جاسوس طیارے پی ایٹ پوسائیڈن کو اس علاقے سے نکل جانے کا حکم دے دیا تھا، تاہم امریکی طیارے نے اس حکم کو نظر انداز کر دیا تھا۔ امریکی وزیر دفاع کارٹر نے ہفتے کے روز سنگاپور منعقدہ اس اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ امریکا کے بحری اور ہوائی جہاز آئندہ بھی بحیرہٴ جنوبی چین میں گشت جاری رکھیں گے کیونکہ امریکا کی نظر میں یہ سمندر بین الاقوامی پانیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔
شانگریلا ڈائیلاگ نامی اس سمٹ میں شریک دیگر رہنماؤں نے، جن میں میزبان سنگاپور کے وزیر دفاع اِنگ اَین ہَین اور اُن کے برطانوی ہم منصب مائیکل فیلن کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے امورِ خارجہ کی سربراہ فیدیریکا موگرینی بھی شامل تھیں، چین اور دَس رُکنی آسیان تنظیم کے رکن ملکوں پر زور دیا کہ وہ جلد از جلد متنازعہ پانیوں کے لیے کوئی ’ضابطہٴ اخلاق‘ اپنائیں۔