1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحران زدہ پاکستان اور پارلیمانی سربراہان: تنخواہیں اور زیادہ

عبدالستار، اسلام آباد
27 ستمبر 2022

پاکستان کے ایوان بالا نے پیر کے روزایک بل منظور کیا ہے جس میں سینٹ کے چیئرمین اور نیشنل اسمبلی کے اسپیکر کی مراعات میں اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/4HQDV
Pakistan Parlament Nationalversammlung in Islamabad
تصویر: Abdul Sabooh

یہ بل ایک ایسے وقت میں منظور کیا گیا ہے جب ملک میں چار کروڑ کے قریب لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ متاثرہ افراد میں گیارہ ملین کے قریب بچے بھی شامل ہیں۔ سیلاب کے باعث نو ملین ایکڑ سے زیادہ زمین تباہ ہوگئی ہے جبکہ بارہ ہزار کلو میٹر سے زیادہ کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور تین سو سے بھی زائد پلوں کو نقصان ہوا ہے۔

ناقدین سینیٹ کی جانب سے اس بل کی منظوری کو بے حسی قرار دے رہے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ اراکین پارلیمنٹ اپنی مراعات میں اضافہ کرنے کے بجائے اپنی تنخواہ اور مراعات سیلاب زدگان کی مدد کے لیے وقف کر دیں۔

منظور شدہ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے بیرونی دوروں کے موقع پر ان کے رتبے کے لحاظ سے پروٹوکول دیا جائےاور انہیں ڈپٹی ہیڈ آف دی اسٹیٹ کے  لحاظ سے پروٹوکول دیا جائے۔

واضح رہے کہ اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے کیے گیے ایک مطالبے کے بعد 21 ستمبر کو ایک حکومتی فیصلے میں ان کے لیے موٹر وے ٹیکس کو بھی ختم کر دیا گیا تھا۔

موروثیت: پاکستان میں جمہوریت کو لاحق سب سے بڑا چیلنج

ایسے حالات میں تنخواہوں میں اضافہ، ایک شرمناک فیصلہ

حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے دانشور امداد قاضی کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کروڑوں لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں ارکان سینیٹ کا اس طرح کا بل منظور کرنا انتہائی شرمناک ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سیلاب زدہ علاقوں میں لوگوں کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے۔ ان کے گھر بار تباہ ہوگئے، مویشی مر گئے، ان کا روزگار ختم ہو گیا ہے۔ ایسے موقع پر اراکین پارلیمنٹ کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام مراعات سے دستبردار ہوں اور اپنی تنخواہ اور مراعات کو سیلاب زدگان کی مدد کے لیے وقف کریں لیکن ایک ایسے وقت میں جب ملک ڈوبا ہوا ہے، یہ انتہائی شرم کا مقام ہے کہ سینیٹ کے ارکان قومی اسمبلی کے چیئرمین اور سینیٹ کے چیئرمین کی مراعات میں اضافہ کررہے ہیں۔‘‘

عوام کا پیسہ پارلیمانی سربراہان پر خرچ ہوگا؟

امداد قاضی کے مطابق ڈپٹی ہیڈ آف سٹیٹ کا پروٹوکول دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر مزید پیسے خرچ کیے جائیں۔ان کے لیے مزید گاڑیوں کا انتظام کیا جائے۔ سیکورٹی سخت کی جائے اور ان کے لیے مزید پر تعیش ہوٹلوں میں قیام کا انتظام کیا جائے۔

اسمبلیاں مراعات میں اضافہ کرنے کے لیے ہیں

 حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے اس دانشور نے ٹول ٹیکس کے خاتمے پر بھی اراکین اسمبلی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ '' یہ اسمبلیاں یہ تاثر دے رہی ہیں کہ یہ عوام کے لیے نہیں بلکہ اپنی مراعات میں اضافہ کرنے کے لیے ہیں۔ ایک طرف انہوں نے عوام پر بے تحاشہ ٹیکسز لگائے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ جو تنخواہ دار طبقہ ہے اس کی تنخواہ سے بھی سیلاب زدگان کے لیے پیسے کاٹے گئے ہیں لیکن جب اراکین اسمبلی کی مراعات کی بات آتی ہے تو وہ اپنی مراعات کم کرنے کے بجائے اس میں اضافے کی بات کرتے ہیں۔

 نامناسب قدم

رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک معاشی طور پر بہت مشکل صورتحال کا سامنا کر رہا ہے اس طرح کے بل کو منظور کرنا مناسب نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سینیٹ کے چیئرمین اور اسپیکر قومی اسمبلی کی پہلے ہی بہت ساری مراعات ہیں۔ میرا تو خیال یہ ہے کہ مالدار اراکین اسمبلی کو نہ صرف اپنی تنخواہیں سیلاب ذدگان کے لیے وقف کرنی چاہیے بلکہ انہیں خود رضا کارانہ طور پر اپنی مراعات سے بھی دستبردار ہو جانا چاہیے۔‘‘

’پاکستان کے جمہوری سفر کو پورپی کمیشن سراہتا ہے‘

افسر شاہی کی بھی مراعات کم کی جائیں

 کشور زہرہ کا کہنا تھا تاہم صرف اراکین اسمبلی کے حوالے سے ہی بات نہیں کی جانی چاہیے۔ ''ہمارے افسر شاہی کے لوگوں کو بھی بہت ساری مراعات ملتی ہیں۔ایک رکن اسمبلی کو تنخواہ تقریبا ایک لاکھ اسی ہزار ملتی ہے جس میں سے بہت ساری کٹوتیاں بھی ہوتی ہیں اور اس سے بہت سارے بلوں کی ادائیگی بھی اس کو کرنی پڑتی ہے لیکن ہمارے افسر شاہی کے ارکان کو سات سے آٹھ لاکھ روپے تنخواہ ملتی ہے۔ ان کو پلاٹ ملتے ہیں۔ ان کا علاج پرائیویٹ اسپتالوں میں بھی ہوسکتا ہے جبکہ ارکان اسمبلی کے لیے سرکاری ہسپتال مختص ہیں۔ تو صرف ارکان اسمبلی کو ہی اپنی مراعات سے دستبرداری نہیں کرنا چاہیے بلکہ بیوروکریسی کے افراد پر سادگی کے اصولوں کا اطلاق ہونا چاہیے۔

 واضح رہے کہ دو ہزار بیس میں بھی ایک بل پیش کیا گیا تھا جس میں اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں بے تحاشا اضافے کی تجویز دی گئی تھی لیکن عوامی تنقید کی وجہ سے پھر اس کو واپس لے لیا گیا تھا اور یہ تجویز بل میں شامل نہیں ہو سکی تھی۔