بان کی مون کا دورہ پاکستان
4 فروری 2009دورے کے دوران ان کی صدر آصف علی زرداری کے علاوہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی سمیت پاکستانی وزارت خارجہ کے اہلکاروں کےساتھ بھی ملاقاتیں متوقع ہیں۔ دو روز قبل کوئٹہ سے اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین کے سربراہ جون سولیکی John Solecki کے اغواء کے بعد بان کی مون کے اس دورے کو اہم قرار دیا جارہا ہے۔ ایک پاکستانی اہلکار کے مطابق دورے کے دوران بان کی مون کی جانب سے یہ مسئلہ ضرور زیر بحث آئے گا اور پاکستان سے کہا جائے گا کہ وہ اقوام متحدہ کے اہلکار کی بخیریت رہائی ممکن بنائے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق بان کی مون کی جانب سے دورہ اسلام آباد کے دوران اقوام متحدہ کے اس ممکنہ تحقیقاتی کمشن سے متعلق اعلان بھی متوقع ہے جو پاکستان کی سابق وزیر اعظم اور موجودہ حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی چئیرپرسن مرحومہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی آزادانہ تحقیقات کرے گا۔
وزارت خارجہ کے مطابق بان کی مون پاکستانی قیادت سے ملاقات میں ممبئی حملوں کے تناظر میں پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے بھی بات کریں گے۔
اسلام آباد آنے سے قبل وہ مختصر دورہ پر افغانستان بھی گئے جہاں انہوں نے صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی۔ افغان صدر سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بان کی مون نے افغانستان کو 2009 میں اقوام متحدہ کی اولین ترجیح قرار دیا اور وہاں جمہوریت کے استحکام اور امن و سلامتی کی صورت حال میں بہتری کے لئے اقوام متحدہ کی جانب سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں مزیدکہا:’’ میرا یہاں آنا اس عہد کی تجدید ہے کہ اقوام متحدہ افغان عوام کے لئے امن و سلامتی کے قیام میں بھرپور مدد کرے گا۔‘‘
دوسری طرف پریس کانفرنس خطاب کرتے ہوئے افغان صدر نے نیٹو اور امریکی افواج کی جانب سے افغانستان میں کی جانے والی کارروائیوں پر اپنے اور امریکی حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مطالبہ صرف یہ کہ افغان گھروں میں گھس کر تلاشی لینے اور افغانیوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ان مطالبات پر واشنگٹن کی جانب سے خاموش رہنے اور مطالبات سے پیچھے ہٹنے کے لئے دباؤ ہے، جسے افغان صدر نے نا ممکن قرار دیا۔