1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک بھیڑیے کا سوال

26 ستمبر 2022

انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔ وہ سوچ سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے اور اچھے برے میں تمیز بھی کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود انسانی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بربریت کی ایسی لاتعداد مثالیں نظر آتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4HMzF
عصمت جبیں
عصمت جبیںتصویر: Privat

ایک مرتبہ دو بھیڑیے آپس میں بات کر رہے تھے۔ ایک بھیڑیے نے اپنے بھائی سے کہا، ''یہ انسان بڑے خونخوار ہوتے ہیں۔ اپنے وجود کی نچلی ترین سطح پر گر کر اپنی وحشیانہ انسانیت کے نتیجے میں وہ جن جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں، ان کی مذمت کرتے ہوئے ان کے بارے میں دوسرے انسان کہتے ہیں: بڑی حیوانیت کا ثبوت دیا! یہ رویہ قابل مذمت ہے۔ انسانوں کو اپنے اعمال کی گندگی ہمارے سر نہیں تھوپنا چاہیے۔‘‘

ایک بھیڑیا یہ بیان کر رہا تھا اور دوسرا خاموشی سے یہ سب سن رہا تھا۔ وہ چپ تھا مگر اس کے ذہن میں ماضی میں نور مقدم نامی ایک پاکستانی عورت کے چہرے کی طرح اب ایک پاکستانی نژاد کینیڈین عورت سارہ انعام کا چہرہ گھوم رہا تھا، جسے چند ہی ماہ پہلے اس سے شادی کرنے والے اس کے شوہر نے اسی کے آبائی وطن کی 'پاک سرزمین‘ پر حال ہی میں آہنی ڈمبل مار مار کر قتل کر دیا تھا۔

 ان خون آلود نسوانی چہروں کو اپنے ذہن میں گردش کرتے دیکھنے والا بھیڑیا پریشان ہو گیا تھا۔ اس نے اپنا سر جھٹک دیا۔ وہ مزید کچھ نہیں سوچ سکتا تھا۔ اس کی آنکھیں دھندلا گئی تھیں۔ اس نے اظہار محبت کے طور پر اپنے ساتھ بیٹھے اپنے بھائی کی کمر سے ٹیک لگا کر اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔

کچھ ہی دیر بعد اس کی آنکھ لگ گئی، اس نے دیکھا کہ وہ ایک قبرستان میں تھا۔ چاروں طرف چھوٹی چھوٹی قبریں تھیں۔ ان بچے بچیوں کی جنہیں 'ناخواہش کردہ‘ ہونے کی وجہ سے پیدائش کے فوراﹰ بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ ایسی معصوم بچیاں بھی جنہیں ریپ کرنے کے بعد قتل کر کے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا تھا۔ قبریں نئی بھی تھیں اور پرانی بھی، سالہا سال کے جرائم کے زمیں میں دفن کردہ ثبوت۔ جرائم ایسے کہ جن کے مجرم بہت معزز تھے اور جنہیں کبھی سزائیں نہیں دی جا سکی تھیں۔

خواب میں یہ خوف ناک منظر دیکھنے والا بھیڑیا ڈر کر جاگ گیا تھا۔ اس نے دہشت زدہ آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھا تو اسے اپنے چاروں طرف یہ سوال ہوا میں لکھا ہوا نظر آیا، ''حیوان کون ہے؟ وہ جو اشرف المخلوقات ہے یا وہ جو میں ہوں؟‘‘

اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اس نے گردن ہلکی سی موڑی اور اپنی تھوتھنی اپنے بھائی کی گردن پر رگڑتے ہوئے بولا، ''بھائی، حیوان کون ہے اور اشرف المخلوقات کون؟‘‘

بڑے بھائی نے لیٹے لیٹے جواب دیا، ''ان کی نظر میں ہم حیوان ہیں اور ہماری نظر میں وہ جو خود کو اشرف المخلوقات کہتے ہیں۔‘‘

''مگر سچ کیا ہے؟‘‘ چھوٹے بھیڑیے نے پوچھا۔

 اسے بڑے بھائی کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ بڑا بھیڑیا لیٹے لیٹے بول رہا تھا، ''میں بس اتنا جانتا ہوں کہ مخلوقات میں سے اشرف کوئی بھی ہو، اشرف ہونا صرف ایک دن یا ایک مہینے کی بات نہیں ہوتی۔ مخلوقات میں سے اشرف ہونا مستقل بہتری اور اچھائی سے جڑا ہوتا ہے۔‘‘

چھوٹے بھیڑیے کو بڑے بھائی کی باتیں کچھ کچھ سمجھ تو آ رہی تھیں مگر پوری طرح نہیں۔ وہ کافی دیر تک سوچتا رہا۔ پھر بولا، ''بھائی، جہاں ہم ہیں، وہاں ہماری موجودگی اچھی بات نہیں۔ انسانی بستیوں سے ڈر لگنے لگا ہے مجھے۔ ان سے کم فاصلے پر ہونا ہمارے لیے محفوظ نہیں ہو سکتا۔ اٹھو چلتے ہیں۔ یہاں سے دور۔ خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے والی لیکن دراصل اس بہت گری ہوئی اور خونخوار مخلوق سے بہت دور نہ ہونا مجھے کوئی اچھا شگون نہیں لگا رہا۔‘‘

دونوں بھیڑیے وہاں سے اٹھ کر جنگل کی طرف اور اندر کی طرف چلنا شروع ہو گئے۔ اب بڑا بھیڑیا اپنے چھوٹے بھائی کی باتوں پر غور کرنے لگا تھا۔ پوری سمجھ اسے بھی نہیں آ رہی تھی مگر اب اس کی آنکھوں سے بھی خوف چھلکنے لگا تھا۔

وہ سوچ رہا تھا کہ اپنی برادری میں لوٹ کر سب سے عمر رسیدہ بھیڑیے سے پوچھے گا، ''درندہ کون ہوتا ہے اور درندگی کسے کہتے ہیں؟ جو انسان انسانیت سے عاری ہوتے ہیں، کیا ان کا کوئی اور نام بھی ہوتا ہے؟‘‘

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔