ایک اور کشمیری پولیس شیلنگ سے ہلاک
31 جولائی 2010ہفتے کو مارے جانے والے نوجوان کے بارے میں ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کوبتایا، ’’ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے ایک گروہ پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ پولیس کیمپ پر حملہ آور ہورہے تھے۔‘‘ اسی واقعے میں متعدد مظاہرین کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ایک خاتون کی حالت نازک بتائی جارہی ہے۔
گزشتہ روز تین مظاہرین سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک جبکہ پچھتر افراد زخمی ہو گئے تھے۔ پولیس کا موقف یہ ہے کہ یہ مظاہرین پولیس اہلکاروں پر پتھر برسا رہے تھے۔ مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ یہ ایک پُر امن جلوس تھا۔
علیحدگی پسندوں کا گڑھ تصور کئے جانے والے ضلع بارہ مولا میں جمعہ سے اب تک پانچ نوجوان مارے جاچکے ہیں۔ خبر رساں ادارے کے مطابق شمالی کشمیر میں مشتعل کشمیری کرفیو کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ کشمیری نوجوان کی حالیہ ہلاکت کو پولیس کیمپوں، ریلوے سٹیشنوں اور دیگر سرکاری عمارات پر مشتعل مظاہرین کے حملے روکنے کی کوششوں کا حصہ قرار دیا جارہا ہے۔ کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور بھارتی وزیر داخلہ پی چدم برم کی جانب سے پرامن رہنے کی اپیلوں کے باوجود حکومت مخالف مظاہروں میں دن بہ دن شدت دیکھی جارہی ہے۔
اس مسلم اکثریتی آبادی والے خطے میں گیارہ جون سے حکومت مخالف جذبات میں شدت دیکھی جارہی ہے۔ 11 جون کو اس سلسلے کا پہلا نوجوان طالب علم پولیس کی شیلنگ میں مارا گیا تھا۔ ہفتے کو وادی کے تمام بڑے شہروں میں کرفیو نافذ تھا تاہم پھر بھی سو پور اور کریری نامی دو علاقوں میں ہزاروں افراد سڑکوں پر آئے اور حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ