ایئر انڈیا ملازمین کی ہڑتال، بھارتی حکومت کی برہمی
26 مئی 2010ایئر انڈیا کے ملازین کی جانب سے ہڑتال کی کال ایک ایسے موقع پر دی گئی ہے، جب چند ہی روز قبل اسی فضائی کمپنی کا ایک مسافر بردار طیارہ بھارتی شہر منگلور میں گر کر تباہ ہوا ہے۔ ہفتے کے روز جہاز کی تباہی کے واقعے میں 158 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ایئر انڈیا کے تقریباً پندرہ ہزار ملازین کی اس ہڑتال نے اس فضائی کمپنی کی سروسز کو بڑے حد تک مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ بھارتی وزیر برائے ہوا بازی امور پرافُل پٹیل کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہےکہ ایسے وقت میں، جب ایئر انڈیا کو شدید دشواریوں کا سامنا ہے، ملازمین اپنی کمپنی کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونے کی بجائے پڑتال میں مصروف ہیں۔
اُنہوں نے کہا:’’ایئر انڈیا کے ملازمین کوایک خاندان کے افراد کی طرح برتاؤ کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ وہ بہتر سے بہتر کام کریں۔ صرف جہاز کے حادثے سے متاثر ہونے والی فیمیلیز کے لئے ہی نہیں بلکہ ایئر لائن کے برانڈ کی مضبوطی کے لئے بھی تاکہ اس فضائی کمپنی کو ڈوبنے سے بچایا جا سکے۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ ملازمین کے غیر ذمہ دار حلقوں نے بغیر کسی پیشگی نوٹس کے ایک غیر قانونی قدم اٹھایا ہے۔
بدھ کے روز ایئر انڈیا ملازمین کی ہڑتال کے باعث کمپنی نے 14 بین الاقوامی پروازوں سمیت مجموعی طور پر 76 پروازیں منسوخ کر دیں۔ منگل کے روز ہڑتال کے پہلے روز تقریباً 50 پروازیں منسوخ ہوئی تھیں۔ ممبئی، نئی دہلی، بنگلور، چنئی اور کولکتہ سے شروع ہونے والی پروازوں پر اس ہڑتال کا زیادہ اثر پڑا ہے۔
ایئر کارپوریشن ایمپلائیز یونین سے وابستہ ویوِک راؤ نے بین الاقوامی خبر رساں اداروں سے بات چیت میں کہا کہ ہڑتال جاری رہے گی اور مزدور یونین کسی دباؤ میں نہیں آئے گی:’’ہڑتال پورے ملک میں جاری رہے گی اور اِس سلسلے میں ہر طرح کا دباؤ برداشت کیا جائے گا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ کمپنی کے اعلیٰ حکام گانگ آرڈر واپس لیں۔‘‘
ایئر انڈیا کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ کمپنی نے گانگ نامی کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا، جس کے تحت ملازمین کو کسی صحافتی ادارے سے بات چیت اور جہاز کے حادثے یا اس کی تصاویر تک رسائی سے روکا گیا ہو۔
گزشتہ برس ستمبر میں ایئر انڈیا کے پائلٹوں نے بھی پانچ روزہ ہڑتال کی تھی۔ گزشہ مالی سال میں ایئر انڈیا نے 55 اعشاریہ پانچ بلین روپے کے نقصان کا اعلان کیا تھا۔ خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ رواں برس اس فضائی کمپنی کو تقریباً 54 بلین روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: امجد علی