1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتخابات کا التوا، کیا الیکشن کمیشن ذمہ دار ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
23 مارچ 2023

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس فیصلے نے، جس کے مطابق پنجاب میں انتخابات کی تاریخ آٹھ اکتوبر مقرر کی گئی ہے، ملک میں ایک بار پھر سیاسی درجہ حرارت بڑھا دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4P8Tk
Pakistan election commission
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

پاکستان تحریک انصاف اور کچھ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اس صورت حال کا ذمہ دار الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے لیکن کچھ حلقے یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو اگر متعلقہ سہولیات نہیں دی جائیں تو وہ پھر کیا کر سکتا ہے؟

واضح رہے کہ پاکستانی صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت 90 دن کے اندر ان دونوں صوبوں میں انتخابات کروائے۔ جب پی ٹی آئی کو یہ محسوس ہوا کہ وفاقی حکومت 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کا ارادہ نہیں رکھتی، تو اس نے ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا، جس نے پہلی مارچ کو یہ فیصلہ دیا کہ پنجاب اورخیبرپختونخوا میں 90 دن میں انتخابات کرائے جائیں یا اس سے تھوڑا آگے پیچھے کی تاریخ پر ان کا انعقاد کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان، خیر پختونخوا اور پنجاب کے حکام سے رابطہ کرے اور صلاح و مشورے سے تاریخ طے کرے۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ 30 اپریل مقرر کی۔

Pakistan | Protestmarsch Unterstützer von Imran Khan
عمران خان 26 مارچ کو ایک جلسہ کر رہے ہیں۔ امکان ہے کہ اب وہ جی ایچ کیو اور حکومت کے ساتھ ساتھ ای سی پی کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنائیں گے۔تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

تاہم کل یعنی بدھ 22 مارچ کو الیکشن کمیشن نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں اس نے کہا کہ پنجاب میں یہ انتخابات اب آٹھ اکتوبر کو ہوں گے۔

ای سی پی کا حکم نامہ

ڈی ڈبلیو نے جب الیکشن کمیشن کی ترجمان قراۃ العین سے اس حوالے سے رابطہ کیا، تو انہوں نے الیکشن کمیشن کا آرڈر پڑھنے کا مشورہ دیا، جو ان کے بقول اس مسئلے کے حوالے سے بالکل واضح ہے۔

ای سی پی کے اس آڈر میں کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ نے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا تھا کہ وہ سول اور فوجی اہلکاروں کو الیکشن ڈیوٹی کے لیے فراہم نہیں کر سکتی جبکہ اس آرڈر میں وزارت خزانہ کے حکام کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جنہوں نے انتخابات کے لیے لیے فنڈز کی فراہمی سے معذرت کی ہے۔

ای سی پی نشانے پر

اس فیصلے کے فوراﹰ بعد پاکستان تحریک انصاف نے اپنی توپوں کا رخ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف کر دیا ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان موجودہ حکومت کا ایک تابعدار ادارہ بن گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق مشیر برائے فوڈ سیکورٹی جمشید اقبال چیمہ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ان کی پارٹی اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''الیکشن کمیشن آف پاکستان بہانے لے کر آرہا ہے۔ اس کو پورا اختیار ہے کہ وہ تمام وسائل کو استعمال کر کے الیکشن کا انعقاد کرے لیکن وہ غیر جمہوری قوتوں کا آلہ کار بن گیا ہے اور موجودہ حکومت کی تابعداری کر رہا ہے۔‘‘

جمشید اقبال چیمہ کے مطابق پارٹی اس حوالے سے صلاح و مشورہ کر رہی ہے اور جلد ہی قانونی ماہرین کی ایک ٹیم اس کو چیلنج کرے گی۔

’یہ آئین شکنی ہے‘

ملک کے کئی حلقوں میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو متعلقہ فنڈز اور سکیورٹی دستیاب نہیں تھی، تو اس نے پہلے 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تاریخ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صلاح مشورے کے بعد ہی دی تھی۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ حکومتی دباؤ پر کیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہندوستان میں سارا سال صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی منطق نہیں کہ صوبے میں اور وفاق میں انتخابات مختلف اوقات میں نہیں ہوسکتے۔‘‘ جسٹس وجیہ الدین کے مطابق ای سی پی نے 90 دن میں الیکشن نہ کرانے کا اعلان کر کے آئین شکنی کی ہے۔

’ای سی پی اختیارات استعمال کر سکتا تھا‘

خیال کیا جاتا ہے کہ آئینی طور پر ای سی پی کو بہت سے اختیارات حاصل ہیں اور انتخابات کے انعقاد کے معاملے میں تمام حکومتی ادارے ای سی پی کے ساتھ تعاون کرنے کے پابند ہیں۔ کچھ معاملات میں ای سی پی کو عدالتی طرز کے اختیارات بھی حاصل ہیں۔ پاکستان کے انتخابی اور جمہوری عمل پر گہری نظر رکھنے والے احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ای سی پی اپنے اختیارات استعمال کر سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ای سی پی نے سندھ حکومت کی درخواست پر تین مرتبہ بلدیاتی انتخابات ملتوی کیے لیکن چوتھی بار اس نے انکار کیا اور سندھ کو انتخابات کرانا پڑے۔‘‘

مجھے گرفتار کر لیا جائے گا، عمران خان

احمد بلال محبوب کے مطابق اگر ای سی پی چاہتا تو یہاں بھی وہ کہہ سکتا  تھا کہ اسے انتخابات کرانے ہیں۔

’ای سی پی پر الزام مناسب نہیں‘

تاہم کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ای سی پی سمیت ملک کے سارے ادارے  ایک ادارے کے سامنے بے بس  ہیں اور صرف حکومت ہی نہیں ہے بلکہ وہ ادارہ بھی غالباﹰ ان انتخابات کا انعقاد 90 دن میں نہیں چاہتا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ ای سی پی کو التوا کا ذمہ دار ٹھہرانا مناسب نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت اور غیر مرئی قوتیں دونوں یہی چاہتے ہیں کہ انتخابات 90 دن میں نہ ہوں۔ اگر ای سی پی کے پاس فنڈنگ اور سکیورٹی کے انتظامات نہیں ہیں تو وہ کیسے انتخابات کراسکتی ہے۔‘‘

توصیف احمد خان کے مطابق جب سکیورٹی ایجنسی کہہ دے کہ وہ سکیورٹی فراہم نہیں کر سکتی تو پھر کوئی ان کے سامنے بول نہیں سکتا: ''اب حکومت اور ای سی پی کو توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جس سے بحران مزید شدید ہوگا۔‘‘

واضح رہے کہ عمران خان 26 مارچ کو ایک جلسہ کر رہے ہیں۔ امکان ہے کہ اب وہ جی ایچ کیو اور حکومت کے ساتھ ساتھ ای سی پی کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنائیں گے۔