1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا اور افغان طالبان کے رابطے اسلام آباد میں بحال ہو گئے

4 اکتوبر 2019

پاکستان میں افغان طالبان کے ایک اعلیٰ وفد نے امریکا کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد کے ساتھ اسلام آباد میں ایک ملاقات کی ہے، جو صدر ٹرمپ کے طالبان سے امن مذاکرات کی معطلی کے اعلان کے بعد سے اطراف کا پہلا مکالمتی رابطہ تھا۔

https://p.dw.com/p/3Qj4O
افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زادتصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد اور امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے جمعہ چار اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق دو مختلف لیکن انتہائی قابل اعتماد ذرائع نے تصدیق کر دی ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے اسلام آباد میں مقیم افغان طالبان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے جمعرات تین اکتوبر کو پاکستانی دارالحکومت ہی میں موجود امریکا کے خصوصی مذاکراتی نمائندے زلمے خلیل زاد کے ساتھ ایک ملاقات کی۔

افغان طالبان کا یہ وفد دو دن پہلے بدھ کو پاکستان پہنچا تھا جبکہ افغانستان میں قیام امن کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد بھی اسلام آباد ہی میں تھے۔ طالبان کے اس وفد کی قیادت افغانستان میں طالبان تحریک کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر کر رہے ہیں۔

امن مذاکرات کی 'موت‘ کے بعد پہلا رابطہ

یہ ملاقات امریکا اور طالبان کے مابین امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد سے اولین سیاسی رابطہ تھی، جس میں صدر ٹرمپ نے واشنگٹن میں اعلان کر دیا تھا کہ امریکا کی افغان طالبان کے ساتھ امن بات چیت 'مر‘ گئی ہے۔ امریکا اور طالبان کے مابین یہ بات چیت قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کئی  ماہ پر محیط متعدد مذاکراتی ادوار پر مشتمل اور اپنے کامیاب اختتام کے بہت قریب تھی۔

Russland l Politischen Führer der Taliban treffen zu Gesprächen in Moskau ein
ماسکو کا دورہ کرنے والا افغان طالبان کا ایک وفد، جس میں ملا عبدالغنی برادر، بائیں سے تیسرے، بھی شامل تھےتصویر: picture alliance/AP Photo/A. Zemlianichenko

اس بات چیت کا مقصد طالبان کے ساتھ ایک ایسا امن معاہدہ طے کرنا تھا، جس کے تحت طالبان عسکریت پسندوں کو سلامتی کی ضمانتیں دینا تھیں اور پھر امریکی فوج کو ہندوکش کی اس ریاست سے نکل جانا تھا۔

کابل میں خونریز حملہ

صدر ٹرمپ نے اس بات چیت کے 'مردہ‘ ہو جانے کا اعلان افغان دارالحکومت کابل میں ہونے والے اس ہلاکت خیز بم حملے کے بعد کیا تھا، جس میں ایک امریکی فوجی کے علاوہ 11 افغان شہری بھی مارے گئے تھے۔ اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے سے قبل بھی طالبان نے افغانستان میں اپنے ہلاکت خیز حملے کافی تیز کر دیے تھے تاکہ وہ بظاہر دوحہ میں جاری مذاکرات میں امریکا پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈال سکیں۔

اسلام آباد میں زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے وفد کے مابین ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ یہ ملاقات ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہی، تاہم اس کا 'مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن مذاکرات باقاعدہ طور پر بحال‘ ہو گئے ہیں۔

پاکستان کا کلیدی کردار

پاکستان کے ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ''طالبان عہدیداروں کی امریکی خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے اور میں آپ کو صرف اتنا ہی بتا سکتا ہوں کہ اس ملاقات کے عمل میں آنے میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس ملاقات کے لیے پاکستان کو فریقین کو اس امر کا قائل کرنا پڑا کہ یہ مکالمتی رابطے امن عمل کے لیے کتنے اہم ہیں۔‘‘

افغان طالبان اور امریکی مندوب کی اسی ملاقات کی ایک اور ذریعے نے بھی تصدیق کر دی اور کہا کہ اس ملاقات میں باقاعدہ امن عمل پر تو کوئی گفتگو نہیں ہوئی تاہم اس کا مقصد اطراف کے مابین اعتماد سازی تھا۔  اس بارے میں پاکستانی دارالحکومت میں امریکی سفارت خانے اور واشنگٹن میں امریکی دفتر خارجہ نے باقاعدہ طور پر کچھ بھی کہنے سے احتراز کیا۔

خلیل زاد کی پاکستان میں کئی روزہ مشاورت

امریکی دفتر خارجہ کے ایک نمائندے نے روئٹرز کو بتایا کہ زلمے خلیل زاد نے اس ہفتے اس لیے پاکستان میں کئی دن گزارے ہیں کہ وہ پاکستانی حکام کے ساتھ مشاورت کر سکیں۔ اس نمائندے نے یہ بھی کہا کہ اسلام آباد میں ایسی کسی میٹنگ کا ہونا جمود کے شکار افغان امن عمل کی بحالی نہیں ہے۔

اسی طرح افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی اس امر کی تصدیق یا تردید نہیں کی کہ طالبان کا وفد اسلام آباد میں خلیل زاد سے ملا ہے۔ تاہم طالبان کے ترجمان نے یہ ضرور کہا کہ یہ وفد آج جمعے کو بھی پاکستانی دارالحکومت میں ہے، جہاں اس کی ملاقاتیں جاری ہیں۔

م م / ع ح (روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں