1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان مذاکرات میں تعاون کے لئے تیار ہیں، پاکستانی وزیر خارجہ

15 اکتوبر 2010

فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان کے اجلاس سے قبل پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں ملکی حکومت کی طالبان سے بات چیت کی کوششیں ایک تعمیری اقدام ہے اور پاکستان اس بارے میں کابل انتظامیہ کی مدد کرنے پر تیار ہے۔

https://p.dw.com/p/PfEi
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشیتصویر: AP

برسلز میں فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان کے اجلاس سے قبل شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اسلام آباد اس سلسلے میں کابل سے تعاون کا اس لئے بھی خواہش مند ہے کہ افغانستان میں داخلی استحکام خود پاکستان کے ریاستی اور سکیورٹی مفاد میں ہے۔

کابل حکومت کی طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ مکالمت کی انہی کوششوں کے بارے میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور امریکہ کا کہنا یہ ہے کہ وہ بھی افغان صدر حامد کرزئی کی ان مصالحتی کاوشوں میں مدد پر تیار ہیں جبکہ اس سلسلے میں پاکستانی وزیر خارجہ نے واضح طور پر کہا کہ اسلام آباد کی خواہش یہ ہے کہ اس بات چیت میں قائدانہ کردار خود افغانستان کو ادا کرنا چاہئے۔

شاہ محمود قریشی کے بقول افغان حکومت کو اس مذاکراتی عمل کی قیادت خود اس لئے بھی کرنی چاہئے کہ مسئلہ افغانستان میں خونریزی پر قابو پانے کا ہے، جو پاکستان پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ قریشی نے کہا: ’’ہم اس معاملے میں مدد کرتے ہوئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ہم اپنے اس ہمسایہ ملک کو مستحکم اور پر امن دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

اسی دوران برسلز میں موجود ایک اعلیٰ پاکستانی اہلکار نے، جو افغان حکومت کے طالبان باغیوں کے ساتھ رابطوں سے اچھی طرح باخبر ہے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کابل حکومت کے طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ یہ رابطے اس بارے میں امریکی مخالفت کے خاتمے کے بعد ہی ممکن ہو سکے ہیں۔

Pakistan Konferenz Brüssel
پاکستانی وزیر خارجہ برسلز منعقدہ اجلاس سے قبل عالمی رہنماؤں کے ہمراہتصویر: AP

اسی لئے اس پس منظر میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے بھی رواں ہفتے کے شروع میں کہہ دیا تھا کہ امریکہ افغانستان میں قیام امن کے عمل کو مسلسل درست راستے پر رکھنے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانے پر تیار ہے۔

کابل حکومت کی طالبان سے بات چیت کے ذریعے انہیں اپنی مسلح جدوجہد ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی انہی کوششوں اور امریکہ اور نیٹو کی طرف سے ان کوششوں کی تائید کے پس منظر میں پاکستان کے ایک اعلیٰ اہلکار نے خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان کاوشوں کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ تاہم اس مقصد کے حصول کے لئے کم ازکم ایک باقاعدہ عمل شروع ہو گیا ہے۔

اس پاکستانی اہلکار کے بقول یہ درست ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی کابل حکومت کی کوششیں ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہیں تاہم بذات خود اس ابتداء کو بھی اس لئے صرف ایک کامیابی کا نام ہی دیا جا سکتا ہے کہ ماضی میں واشنگٹن حکومت کی سیاسی اور عسکری مخالفت کے باعث ایسی کوئی کوشش عملی طور پر کی ہی نہیں جا سکی تھی۔

افغانستان میں حکومت اور طالبان کے مابین کسی بھی بات چیت کی کامیابی کے لئے پاکستان کی حمایت اس لئے بھی ضروری ہے کہ اسلام آباد بظاہر ابھی تک افغان طالبان پر کافی زیادہ اثر انداز ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور نیٹو کے قیادت کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات اور مصالحت کا یہ عمل بہت پیچیدہ ہے اور اسی وجہ سے شاید کوئی بہت بڑے نتائج یکدم سامنے نہ آئیں۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں