1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان نے ایک اور خاتون کو سنگسار کر دیا

مقبول ملک
9 مارچ 2017

افغانستان کے شمال مشرقی صوبے بدخشاں میں طالبان عسکریت پسندوں نے مبینہ غیر ازدواجی جنسی رابطوں کے الزام میں ایک خاتون کو سنگسار کر دیا جبکہ ایک مرد کو کوڑے لگائے۔ ان واقعات کی افغان حکام نے تصدیق کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/2Yuis
Symbolbild Steinigung
تصویر: Sajjad Hussain/AFP/Getty Images

افغان دارالحکومت کابل سے جمعرات نو مارچ کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے ایک عورت اور ایک مرد کو یہ سزائیں جمعرات آٹھ مارچ کے روز، جب پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا تھا، بدخشاں کے ضلع وردوج میں دی گئیں۔

بدخشاں میں خواتین سے متعلقہ امور کے صوبائی محکمے کی سربراہ ذوفنون ناطق نے بتایا کہ شالی مشرقی افغان صوبے بدخشاں کا ضلع وردوج طالبان شدت پسندوں کے کنٹرول میں ہے اور وہاں سے ملنے والی محدود معلومات بھی تاخیر سے موصول ہوتی ہیں۔

افغان طالبان نے نوجوان خاتون کو سنگسار کر دیا

طالبان کی عدالت کا فیصلہ، افغان جوڑا سنگسار کر دیا گیا

ذوفنون ناطق کے بقول وردوج میں ایک مقامی خاتون کا سنگسار کیا جانا گزشتہ بارہ مہینوں کے دوران ایسا آٹھواں واقعہ ہے کہ طالبان نے اپنے وضع کردہ نام نہاد نظام انصاف کے تحت مبینہ ’اخلاقی جرائم‘ کے نام پر کسی خاتون کو ہلاک کر دیا۔

ایسے واقعات میں طالبان نے اپنے ’قاتلانہ انصاف‘ کا نشانہ بننے والی تمام آٹھوں خواتین کو سنگسار نہیں کیا تھا بلکہ قریب ایک مہینہ پہلے بدخشاں صوبے میں ہی جن دو خواتین پر ’غیر قانونی جنسی تعلقات‘ کا الزام لگایا تھا، انہیں گولی مار دی گئی تھی۔

Demonstration gegen Steinigung in den Iran in Wien
تصویر: AP

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ افغانستان کے طول وعرض میں ایسے یا ان سے ملتے جلتے ہلاکت خیز واقعات کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ جنوری کے مہینے میں وسطی افغانستان میں طالبان کی طرف سے چھ افراد کو رہزنی اور غیر ازدواجی جنسی روابط کے الزام میں سرعام کوڑے مارے گئے تھے۔

ہندوکش کی اس ریاست میں انسانی حقوق کے غیر جانبدار کمیشن AIHRC کے مانیٹرنگ اور چھان بین کے شعبے کے کوآرڈینیٹر حسین معین کے مطابق یہ صورت حال ان کے ادارے کے لیے حقیقی معنوں میں گہری تشویش کا باعث ہے۔

حسین معین نے ڈی پی اے کو بتایا کہ طالبان عسکریت پسندوں یا دیگر شدت پسند عناصر کے ہاتھوں ایسی ماورائے عدالت ہلاکتوں کے واقعات تقریباﹰ ہمیشہ ہی ان علاقوں میں پیش آتے ہیں جو حکومت کے کنٹرول سے باہر اور غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اکثر ایسی ماورائے عدالت ہلاکتوں کی چھان بین کے قابل ہی نہیں ہوتی۔