1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن بحران پر امریکا اور روس کے مابین بات چیت

11 جنوری 2022

جنیوا میں روس اور امریکا کے مابین یوکرائن کے تنازعے پر پیر کے روز آٹھ گھنٹے تک چلنے والی بات چیت کے بعد فریقین کشیدگی کو کم کرنے کے اقدامات جاری رکھنے پر رضامند ہوگئے۔ تاہم کسی اہم پیش رفت کی کوئی علامت نظر نہیں آئی۔ 

https://p.dw.com/p/45Mlm
Gespräche zur Ukraine-Krise zwischen USA und Russland in Genf
تصویر: Denis Balibouse/KEYSTONE/REUTERS/dpa/picture alliance

بتایا جارہا ہے کہ اس وقت بھی تقریباً ایک لاکھ روسی فوج یوکرائن کی سرحد کے قریب موجود ہے، جس کی وجہ سے روس کی جانب سے حملہ اور مغرب کی طرف سے جوابی کارروائی کا خدشہ لاحق ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ اگر روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو اس کے خلاف پابندیاں عائد کردی جائیں گی۔ دوسری طرف روس نے بھی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ امریکا مغرب کے ساتھ ماسکو کے تصادم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات کونظر انداز نہ کرے۔

روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے میٹنگ کے بعد نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "ہم نے اپنے رفقاء کار پر یہ واضح کردیا ہے کہ یوکرائن پر حملہ کرنے کا نہ تو کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی کوئی ارادہ۔"

انہوں نے کہا کہ روس نے اپنے امریکی ہم مناصب سے کہا ہے کہ فوجیوں اور فورسز کی تربیت کے حوالے سے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ ہمارے اپنے علاقے کے اندر ہیں اور "اس سلسلے میں صورت حال بگڑنے کے حوالے سے خوفزدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔"

امریکا کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شیرمن نے کہا کہ بات چیت "صاف صاف اور واضح انداز "میں ہوئی۔ اس کا مقصد ایک دوسرے کی سیکورٹی کے حوالے سے تشویش کوبہتر طور پر سمجھنا تھا۔

روسی نمائندے اس ہفتے نیٹو اور یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم (او ایس سی ای) کے وفود سے بھی ملاقات کرنے والے ہیں۔

جنیوا میں روس اور امریکا کے مابین یوکرائن کے تنازعے پر پیر کے روز آٹھ گھنٹے تک بات چیت چلی
جنیوا میں روس اور امریکا کے مابین یوکرائن کے تنازعے پر پیر کے روز آٹھ گھنٹے تک بات چیت چلیتصویر: Alexey Vitvitsky/Sputnik/dpa/picture alliance

امریکا اور روس نے کیا کہا؟

روسی نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا کے ساتھ بات چیت "مشکل" اور "پروفیشنل"رہی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ امریکا کے موقف سے ہمیں "کوئی حیرت نہیں ہوئی۔"

ریابکوف کا کہنا تھا ،"ہمیں کچھ دھمکیاں اور وراننگ دی گئیں... ہم نے اپنے رفقاء کار سے کہا کہ یوکرائن پر حملے کا ہمارا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔" انہوں نے مزید کہا، "اس معاملے میں صورتحال حال کے خراب ہونے کے حوالے سے خوف کی کوئی بنیاد نہیں۔"

امریکی نائب وزیر خارجہ اینڈی شیرمن کا کہنا تھا کہ پیر کے روز ہونے والی بات چیت سے یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ماسکو فوج کی واپسی کے حوالے سے کوئی وعدہ کرے گا۔

شیرمن نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "میں نہیں سمجھتی کہ ہمیں اس کا جواب معلوم ہے۔ ہم نے یہ بالکل صاف کردیا ہے کہ فوج کی واپسی کے بغیر تعمیری، ثمر آور اور کامیاب سفارت کاری بہت مشکل ہے۔"

انہوں نے مزید بتایا کہ امریکی وفد نے روس کے اس مطالبے کو مسترد کردیا کہ نیٹو اس بات کی ضمانت دے کہ وہ مشرق کی جانب اپنی توسیع روک دے گا۔

روس کا کہنا ہے کہ وہ فوجی تربیتی مشقیں اپنے علاقے میں کررہا ہے
روس کا کہنا ہے کہ وہ فوجی تربیتی مشقیں اپنے علاقے میں کررہا ہے تصویر: AP Photo/picture alliance

ماہرین کا کیا کہنا ہے؟

ڈ ی ڈبلیو برسلز کی بیورو چیف الیکزانڈرا وان ناہمن کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے سفارت کاروں کی درمیان ہونے والی بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان کوئی معاہدہ ابھی بہت دور ہے۔

انہوں نے کہا کہ بات چیت تمام اہم معاملات پر "کسی پیش رفت کے بغیر" ختم ہوگئی لیکن یہ غیر متوقع بھی نہیں ہے کیونکہ اس میٹنگ کا مقصد ایک دوسرے کی تشویش کو سننا تھا۔ ناہمن نے کہا کہ فی الوقت یہ پوری طرح غیر واضح ہے کہ کوئی معاہدہ کس طرح ممکن ہوگا۔

دوسری طرف انفارمیشن اور سائبرکے امریکی ماہر دمتری الپرووچ اس بات چیت کی سست رفتار کو مثبت طور پر دیکھتے ہیں۔

الپرووچ نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا،" میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہت مثبت پیش رفت ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یورپی سیکورٹی کے معاملات، روس کی فکر مندیوں کو دور کرنے اور یورپی ملکوں کی تشویش کو دور کرنے کے حوالے سے ممکنہ طورپر طویل عرصے تک بات چیت کرسکتے ہیں۔ جس میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ اس دوران ہم بلاشبہ جنگ کو ٹال سکتے ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں جنیوا مذاکرات کی یہ سب سے اہم حصولیابی ہے۔"

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں