1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین کے لیے سن 2019ء بھی آسان نہیں ہوگا، تبصرہ

امتیاز احمد بیرنڈ ریگرٹ، برسلز
25 دسمبر 2018

آئندہ برس یورپی پارلیمان اور یورپی کمیشن کے انتخابات ہوں گے۔ یورپی یونین میں تبدیلی تو آئے گے لیکن عوامیت پسندی، تجارتی جنگ، مہاجرت اور بجٹ جیسے مسائل برقرار رہیں گے۔ کیا آئندہ برس سن 2018ء سے بھی مشکل ثابت ہوگا؟

https://p.dw.com/p/3Ac74
Symbolbild EU-Brexit-Gipfel
تصویر: picture alliance/NurPhoto/A. Pezzali

بریگزٹ کے حوالے سے برطانیہ کے ساتھ سست روی کے شکار مذاکرات، امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ، یورپ میں عوامیت پسندی کی لہر اور  پولینڈ، ہنگری اور رومانیہ میں قانون کی حکمرانی کی کمی جیسے مسائل نے رواں برس یورپی یونین کو مصروف رکھا لیکن کیا آئندہ برس اس سے بھی برا ثابت ہو سکتا ہے؟ جی بالکل ہو سکتا ہے لیکن لازمی نہیں ایسا ہی ہو۔

مئی دو ہزار نو میں یورپی پارلیمان کے نئے انتخابات ہوں گے۔ بعدازاں خزاں میں یورپی کمیشن سے لے کر یورپی مرکزی بینک تک یونین کے تمام اعلیٰ دفاتر میں نئے عہدیدار براجمان ہونا ہیں۔ اس طرح یورپ کو درپیش مسائل خود بخود تو حل نہیں ہوں گے لیکن ایک نئے آغاز کی توقع ضرور ہے۔

پارلیمان میں مزید بنیاد پرست

انتخابی جائزوں کے مطابق یورپی پارلیمان میں آئندہ برس دائیں بازو کے بنیاد پرستوں اور عوامیت پسند اراکین کی تعداد دس سے بڑھ کر بیس تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ بنیاد پرست یورپی پارلیمان میں کوئی بڑی طاقت بن کر تو نہیں ابھریں گے لیکن ان کا اثرو رسوخ زیادہ ہو جائے گا۔ یہ ارکان انضمام اور اصلاحات کے عمل کو مغوی بنا سکتے ہیں۔ انتخابی نتائج یورپی یونین کے عوام میں مزید بے چینی کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہاں پر یورپی یونین کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ امن اور خوشحالی کے لیے ’سب سے پہلے میرا ملک‘ کی بجائے ’یورپ زیادہ اہم‘ ہے۔

یورپی یونین چھوٹی ہو جائے گی

برطانیہ کے اخراج کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ یورپی یونین سکڑ جائے گی۔ اگر خارجہ اور سلامتی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یورپی یونین کے لیے یہ یقینی طور پر ایک بہت بڑا نقصان ہو گا۔ برطانیہ کی فوجی طاقت کے بغیر دنیا میں یورپی یونین کا شمار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہاں معاشی لحاظ سے یورپی یونین برطانیہ کے بغیر بھی اپنے مسائل سے نمٹنے کی طاقت رکھتی ہے۔ دوسری جانب برطانیہ کے لیے بریگزٹ کے نتائج اس سے بھی برے ہو سکتے ہیں اور اس کا اندازہ خود برطانوی حکومت کو بھی ہے۔ برطانوی ایوان زیریں میں بریگزٹ کے عمل کو مکمل بلاک کرنے سے یہ موقع ابھی بھی موجود ہے کہ بریگزٹ کو ملتوی کر دیا جائے لیکن مطلوب تو یہ ہے کہ اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا جائے۔

Belgien Brüssel - Jean-Claude Juncker fasst Günther Öttinger ins Haar
یورپی کمیشن سے لے کر یورپی مرکزی بینک تک یونین کے تمام اعلیٰ دفاتر میں نئے عہدیدار براجمان ہونا ہیںتصویر: Getty Images/AFP/J. Thys

نئے مسائل کا سامنا

برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے بعد اٹلی جیسے ملکوں کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ دوسری جانب اٹلی کی عوامیت پسند نئی حکومت یورپی یونین میں غیریقینی صورتحال کا باعث بن رہی ہے۔ دائیں بازو کی بنیاد پرست حکمران پارٹی کے سربراہ ماتیو سالوینی وزارت داخلہ کے عہدے سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ وزیراعظم کا عہدہ چاہتے ہیں اور انتخابات میں برسلز مخالف مہم چلائیں گے۔

یورپ میں عوامیت پسندی کے خلاف بڑی آوازوں میں سے ایک فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں ہیں۔ لیکن اگر فرانس میں ’پیلی جیکٹوں‘ والے مظاہرین کی وجہ سے ان کی طاقت میں کمی آتی ہے تو یورپی یونین اپنے انجن کو چلانے والے بلیٹ سے محروم ہو جائے گی۔

یورپی یونین کے داخلی بحرانوں سے قطع نظر روس کے خطرے، ٹیکنالوجی کے میدان میں چین سے مقابلے، افریقہ میں اثرو رسوخ اور وائٹ ہاوس کے غیر متوقع رویے کی وجہ سے خارجہ طوفانوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ ڈیجیٹل دنیا میں تبدیلی، مصنوعی ذہانت کے استعمال میں اضافے اور ماحول دوست معیشت کو سن دو ہزار نو میں نئی طاقت اور نئے خیالات کی ضرورت ہو گی۔ یہاں پر یورپی یونین اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ یورپ یہ ثابت کر سکتا ہے کہ جو کچھ مشترکہ کوششوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے وہ تنہا ممکن نہیں ہے۔

مشرقی یورپ میں سماجی تبدیلیوں کے تیس برس بعد سن 2019ء کوئی آسان سال ثابت نہیں ہو گا لیکن کیا یورپی یونین کے لیے کوئی ایک برس آسان بھی تھا؟ یورپی یونین بحرانی صورتحال سے نمٹنے کی عادی ہو چکی ہے۔ یہ آئندہ برس بھی ممکنہ بحرانوں کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کر ہی لے گی۔