1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی پارلیمان: کاپی رائٹس قانون میں متنازعہ اصلاحات منظور

26 مارچ 2019

یورپی پارلیمان کے ارکان نے اکثریتی رائے سے یورپی کاپی رائٹس قانون میں جامع لیکن متنازعہ اصلاحات کی منظوری دے دی ہے۔ اس سلسلے میں مجوزہ مسودے میں کئی بار ترمیم کی گئی، جس کے بعد یورپی پارلیمان نے اس کی منظوری دے دی۔

https://p.dw.com/p/3FgyR
تصویر: Reuters/H. Hanschke

اس ترمیمی قانون کے ساتھ یورپی یونین کے کاپی رائٹس سے متعلق جس قانون کو جدید تر بنا دیا گیا ہے، وہ بیس سال پرانا تھا اور یورپی پارلیمان میں آج منگل چھبیس مارچ کو ہونے والی رائے شماری سے کچھ دیر پہلے تک بھی یہ بات قطعی غیر یقینی تھی کہ آیا یہ قانونی بل ارکان کی اکثریت کی حمایت حاصل کر سکے گا۔

اس مسودہ قانون پر رائے شماری میں اسٹراسبرگ کی پارلیمان کے 348 ارکان نے اس کی حمایت کی جبکہ 274 ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیا اور 36 ارکان نے اپنی رائے محفوظ رکھی۔ یورپی کاپی رائٹس قانون میں یہ اصلاحات بہت زیادہ متنازعہ بھی تھیں۔

جامع اصلاحات متنازعہ کیوں؟

اس قانونی بل کے خلاف گزشتہ دنوں کے دوران یورپی یونین کے رکن 28  ممالک میں سے 20 سے زیادہ ریاستوں میں کئی ملین شہریوں کی طرف سے بیسیوں بڑے بڑے شہروں میں بھرپور احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔ یورپی پارلیمان کی طرف سےمنظوری کے بعد اب اس بلاک کی رکن ریاستوں کو انفرادی طور پر بھی اس نئے قانون کی منظوری دینا ہو گی۔

اس نئے قانون کا مقصد ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر کاپی رائٹس کا اس طرح تحفظ کرنا ہے کہ مختلف اشاعتی اور نشریاتی اداروں اور فنکاروں کے کاروباری حقوق اور حقوق دانش کی عوامی سطح پر نفی کو روکا جا سکے۔ اس قانون کی شق نمبر 11 کے تحت پوری یورپی یونین میں اب ایک ایسا ضابطہ نافذ ہو جائے گا، جس کے تحت کاپی رائٹس کے زمرے میں آنے والی تخلیقات کا مکمل کاروباری تحفظ کیا جا سکے گا۔

Europäisches Parlament stimmpt über Kosovo-Report ab
تصویر: DW/V. Gacaferri

اس دوران ایسی جو تخلیقات اب تک گوگل یا دیگر بڑے آن لائن پلیٹ فارمز پر پہلے سے شائع ہو چکی ہیں، ان مضامین، موسیقی یا تصویروں وغیرہ کے لیے اب متعلقہ پلیٹ فارمز کو کاپی رائٹس کے حامل افراد اور اداروں کو ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔

 اس کی ایک مثال جرمنی میں اشپیگل نامی جریدے کے آن لائن ایڈیشن کی طرف سے کئی سال سے لڑی جانے والی وہ قانونی جنگ بھی ہے، جو گوگل کے خلاف تھی۔ اس میں اشپیگل آن لائن کا موقف تھا کہ گوگل کی طرف سے اس کی ویب سائٹ پر خبروں کے لیے اس ادارے کا تحریری مواد تو استعمال کیا جاتا ہے، لیکن کوئی ادائیگی نہیں کی جاتی۔

اس کے علاوہ اب اس نئے یورپی کاپی رائٹس قانون کے آرٹیکل 17 (گزشتہ قانون کے آرٹیکل 13) کے تحت گوگل کی ذیلی کمپنی یوٹیوب، فیس بک کی ذیلی کمپنی انسٹاگرام اور GitHub جیسی کمپنیوں کو اس بات کو بھی یقینی بنانا پڑے گا کہ ان پلیٹ فارمز کے صارفین اپنی طرف سے جو مواد اپ لوڈ کرتے ہیں، اس میں کاپی رائٹس کی کوئی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو۔

BERLIN Protest gegen Uploadfilter und EU-Urheberrechtsreform
تصویر: picture alliance/dpa/C. Soeder

ایسی کسی بھی ممکنہ خلاف ورزی کو روکنے کے لیے ان بڑے بڑے آن لائن پلیٹ فارمز کو اپنے اپنے تکنیکی نظاموں میں ایسے آن لائن  فلٹرز لگانا پڑیں گے، جو کاپی رائٹس کی کسی بھی ممکنہ خلاف ورزی کا اپ لوڈ سے پہلے ہی پتہ چلا سکیں اور ایسے کسی بھی اپ لوڈ کو روک سکیں۔

کئی ملین کی تعداد میں عام صارفین اور سینکڑوں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے یورپی آن لائن پلیٹ فارمز اس نئے اور سخت تر کاپی رائٹس قانون کے خلاف اس لیے تھے کہ ان کے بقول ایسے سارے ہی ادارے بہت مہنگے اور نئے آن لائن فلٹرز خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ دوسری طرف عام صارفین کا کہنا یہ تھا کہ ایسا کرنا اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے مترادف ہو گا۔

اس پر یورپی پارلیمان کے ارکان نے اس نئے مسودہ قانون کی منظوری کے ساتھ جو جواب دیا ہے، وہ یہ ہے کہ اظہار رائے کی آزادی ہر کسی کو حاصل ہے، جس کا ہر قیمت پر تحفظ بھی کیا جانا چاہیے، لیکن کسی بھی فنکار، ادارے یا کاپی رائٹس کے مالک فرد یا کمپنی کا بھی یہ قانونی حق ہے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھی ان کے مالیاتی حقوق کا تحفظ کیا جائے اور انہیں ان کے جائز آمدنی سے محروم نہ رکھا جائے۔

م م / ا ا / روئٹرز، ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں