1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی پارلیمان کا ترک صدر ایردوآن کو کھرا جواب

باربرا ویزل / مقبول ملک12 مئی 2016

یورپی پارلیمان کے اسپیکر کے مطابق انقرہ حکومت ترک شہریوں کے لیے شینگن زون میں ویزا فری داخلے سے متعلق یورپی یونین کی شرائط پوری کرنے سے کوسوں دور ہے اور اس موضوع پر یورپی پارلیمان میں ابھی کوئی بحث بھی نہیں ہو سکتی۔

https://p.dw.com/p/1ImIf
Symbolbild Aufhebung Visumspflicht für türkische Staatsbürger
تصویر: Getty Images/C. McGrath

یورپی پارلیمان کا کہنا ہے کہ جب تک انقرہ حکومت ترک شہریوں کو شینگن زون میں ویزا فری داخلے کی اجازت دینے کے لیے رکھی گئی یورپی یونین کی شرائط پورا نہیں کرتی، تب تک اس موضوع پر کوئی پارلیمانی بحث یا مشاورت بھی نہیں ہو سکتی۔ یہ موقف اس امر کا ثبوت ہے کہ یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے تناظر میں انقرہ حکومت کی طرف سے یورپ پر دباؤ ڈالنے کی نئی کوششوں پر اس وقت یورپی رہنماؤں اور اداروں کی طرف سے کتنی سخت تنقید کی جا رہی ہے۔

لگتا یہ ہے کہ فی الحال یورپی پارلیمان میں کوئی ایک بھی رکن ایسا نہیں ہے، جو ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی حمایت میں بولنا چاہتا ہو۔ یورپی پارلیمان میں یہ بھی پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا کہ اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر سبھی ارکان نے ترک صدر پر تنقید کی۔ اس سلسلے میں یورپ میں سنی جانے والی تنقیدی آوازوں میں مزید شدت اس وقت پیدا ہوئی، جب رجب طیب ایردوآن کے مشیر برہان کُوزُو نے ترک یورپی معاہدے کے بارے میں وہ بیان دیا، جسے یورپ میں ترک صدر کی طرف سے ’دباؤ ڈال کر اپنا کام نکلوانے کی نئی کوشش‘ کا نام دیا گیا۔ کئی ارکان نے تو اس کے لیے ’بلیک میلنگ‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی۔

ابھی شرائط پوری نہیں ہوئیں

ترک یورپی تنازعے میں جس ایک بیان کو کسی حد تک ’آدھا مثبت‘ کہا جا سکتا ہے، وہ یورپی یونین کے کمشنر دیمیتریس آوراموپولِس کا بیان تھا، جنہوں نے یہ کہا کہ وہ جہاں تک ممکن ہو سکا، یورپی یونین کے ترکی کے ساتھ تارکین وطن سے متعلق معاہدے کو بچانے کی کوشش کریں گے۔ اسی لیے انہوں نے ان کئی شرائط کا ذکر بھی کیا، جو ترکی اب تک اپنے باشندوں کے لیے شینگن زون میں ویزا فری سفر کی سہولت کے حصول کے لیے پوری کر چکا ہے۔ لیکن اس یورپی کمشنر نے ان پانچ نکات کا بھی کھل کر ذکر کیا، جو ترک باشندوں کو دی جانے والی آئندہ ویزا فری سفری سہولیات کے حصول کی شرائط میں شامل تھے اور جو ابھی تک پورے نہیں کیے گئے۔

Türkei Recep Tayyip Erdogan G20-Gipfel in Antalya
ترک صدر رجب طیب ایردوآنتصویر: A. Altan/AFP/Getty Images

متنازعہ شرائط ہیں کیا؟

اس وقت انقرہ اور برسلز کے مابین جو نکات متنازعہ ہیں، ان کا تعلق عام شہریوں کے پرسنل ڈیٹا کے تحفظ، بدعنوانی کے خلاف جنگ اور ترکی میں رائج انسداد دہشت گردی کے ان قوانین سے ہے، جن میں یورپی مطالبے کے مطابق ترامیم کی جانا لازمی ہیں۔ یورپ کو شکایت ہے کہ ترکی میں یہ قوانین مخصوص صحافیوں اور حکومت پر تنقید کرنے والے عناصر کے خلاف استعمال کیے جا رہے ہیں۔

اس بارے میں یورپی امور کے ترک وزیر وولکان بوزکِیر ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ان قوانین میں ترامیم زیر غور ہیں ہی نہیں۔ اس بارے میں اپنے ردعمل میں یورپی کمشنر آوراموپولِس نے جب یورپی پارلیمان کے ایوان میں یہ کہا کہ ’ہمیں لازمی طور پر پرامید رہنا چاہیے‘، تو یہ بات کہنے والی اس ایوان میں موجود وہ واحد شخصیت تھے۔

’بلیک میلنگ قبول نہیں کریں گے‘

ترکی سے سنائی دینے والے ایسے اشتعال انگیز بیانات کے بعد لازمی سی بات ہے کہ یورپی پارلیمان بھی اپنے موقف میں مزید غیر لچک دار ہو گئی ہے۔ یورپی رہنما اس بات پر بھی ناراض ہیں کہ بظاہر ترکی کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ یورپ کی مہاجرین کے بحران کے حل کی کوششوں اور تارکین وطن سے متعلق سیاست کی کامیابی کا انحصار کلی طور پر ترکی کی خواہشات پر ہے۔

Brüssel EU Parlament Martin Schulz Debatte Flüchtlingskrise
یورپی پارلیمان کے اسپیکر مارٹن شُلستصویر: picture-alliance/dpa/O. Hoslet

اٹلی سے تعلق رکھنے والے ’شمالی لیگ‘ نامی پارٹی کے ایک رکن ماریو بورگیزیو نے تو یہاں تک کہہ دیا، ’’ترکی ایک ایسی ریاست ہے، جو ایک پولیس اسٹیٹ ہے اور جو ایک خود پسند حکمران (صدر ایردوآن) کے ہاتھوں میں ہے۔‘‘ اسی طرح دائیں بازو کی اطالوی عوامیت پسند جماعت کے ایک رکن ماسیمو کاسٹالڈو کا کہنا تھا، ’’صدر ایردوآن ہمارے دوست ہو ہی نہیں سکتے۔‘‘

امکانات

ان حالات میں یورپی پارلیمان کے اسپیکر مارٹن شُلس نے بھی کہہ دیا ہے کہ جب تک ترک حکومت ترک باشندوں کے لیے شینگن زون میں ویزا فری داخلے کی سہولت کے حصول کے لیے طے کردہ شرائط پورا نہیں کرتی، تب تک یورپی پارلیمان کے لیے اس بارے میں کوئی مشاورتی عمل بھی ممکن نہیں ہو گا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ برسلز اور انقرہ کے مابین اختلافات کے خاتمے کے لیے فی الحال کہیں کوئی لچک نظر نہیں آتی اور اس کا نتیجہ محض موجودہ جمود کا تسلسل ہو گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں