1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی پارلمانی انتخابات

رپورٹ مقبول ملک ⁄ ادارت عدنان اسحاق6 جون 2009

یورپی پارلیمان کے ارکان میں ایسے سیاستدانوں کی کبھی کمی نہی رہی جو ہمیشہ یہ مطالبے کرتے رہے کہ یورپی یونین کا اپنا ایک آئین ہونا چاہیئے۔

https://p.dw.com/p/I4PX
روم کے ایک تاریخی مقام پر یورپی یونین کا پرچمتصویر: AP

یورپی یونین کے رکن ستائیس ملکوں میں یورپی پارلیمان کے تقریبا آٹھ سو نئے ارکان کے انتخاب کا عمل جاری ہے۔گے۔ یورپی پارلیمان کی تاریخ، ماضی میں اس کے اہم فیصلوں اور مستقبل میں اس ادارےکی سیاسی ذمہ داریوں کیا تھیں؟ یورپی پارلیمان کی اصطلاح پہلی مرتبہ ساٹھ کی دہائی کے شروع میں سننے میں آئی تھی۔ پھرسن 1979 میں یورپی برادری میں شامل ریاستوں کے شہریوں نے اس پارلیمانی ادارے کے ارکان کا انتخاب پہلی مرتبہ براہ راست رائے دہی کے ذریعے کیا۔ تب یورپی برادری کے رکن ملکوں کی تعداد صرف نو تھی اور یورپی پارلیمان کے منتخب ارکان کی مجموعی تعداد 410۔ لیکن آج یورپی یونین میں شامل ریاستوں کی تعداد 27 ہو چکی ہے اور یورپی پارلیمان کے ارکان کی مجموعی تعداد 784 بنتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دو درجن سے زائد ملکوں کے نمائندوں پر مشتمل یہ یورپی قانون ساز ادارہ دنیا کے سب سے بڑے پارلیمانی اداروں میں شمار ہوتا ہے۔ سن 1979 میں یورپی پارلیمان کے ارکان کا پہلی مرتبہ براہ راست انتخاب کن حالات میں عمل میں آیا اور تب اس رائے دہی میں کن ملکوں کے شہریوں نے حصہ لیا تھا۔

Deutschland EU Wahlen zu Europaparlament Plakat in Aachen
جرمنی میں یورپی پارلیمانی انتخابات کی تیاریوں کا ایک منظرتصویر: picture alliance / dpa

دس جون 1979 کے روز یورپی پارلیمانی انتخابات کے دوران اپنی نوعیت کی اولین عوامی رائے دہی سے پہلے، کئی ملکوں میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایسی تشہیری مہم چلائی گئی تھی جس کی مدد سے عام شہریوں پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ انہیں یورپی سطح پر اپنے پارلیمانی نمائندوں کا چناؤ کیوں کرنا چاہیئے، اور مستقبل میں اس یورپی ادارے کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی۔

پہلی رائے دہی:

یورپی برادری کی پہلی منتخب پارلیمان کے لئے جن ملکوں میں شہریوں نے رائے دہی میں حصہ لیا تھا، ان میں برطانیہ، آئرلینڈ، ڈنمارک، جرمنی، ہالینڈ، بیلجئیم، لکسمبرگ، فرانس اور اٹلی شامل تھے۔ تب ان ملکوں میں قریب 63 فیصد رائے دہندگان نے اپنا ووٹ کا حق استعمال کیا تھا، جو 2004 میں ہونے والے گذشتہ یورپی الیکشن میں عوامی شرکت کے تناسب کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ تھا۔ ٹھیک تین عشرے قبل ڈنمارک سے جو سیاستدان پہلی مرتبہ یورپی پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے تھے، اُن میں Jens Peter Bonde بھی شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب وہ سن1979میں پہلی بار یورپی پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے تھے تویہ ادارہ حقیقی معنوں میں کوئی پارلیمان نہیں تھا۔ سوائے اس وقت کے جب ارکان پارلیمان کے طور پر تنخواہیں ملتی تھیں، اس وقت ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ کسی ایسے سیارے پر ہیں جس کا زمین سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ تب اس ادارے کو کوئی اختیارات حاصل نہیں تھے۔ ارکان قراردادیں منظور کراسکتے تھے، لیکن ان پر عمل درآمد کے سلسلے میں ان کا اثر ورسوخ نہ ہونے کے برابر تھا۔"

Simone Veil
یورپی پارلیمان کی اولین اسپیکر فرانسیسی خاتون سیاستدان Simone Veilتصویر: AP


سن 1979 میں یورپی پارلیمان کی اولین اسپیکر فرانسیسی خاتون سیاستدان Simone Veil کو چنا گیا جنہوں نے نازی دور میں یہودیوں کے قتل عام کا زمانہ بھی دیکھا تھا، جو فرانسیسی حکومت میں وزیر بھی رہ چکی تھیں، اور جو خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی انتہائی ممتاز یورپی شخصیات میں شمار ہوتی تھیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد فرانس میں اسقاط حمل کو قانونی طور پر جائز قرار دلوانے میں بھی Somine Veil کاکردار انتہائی فیصلہ کن رہا تھا۔ پیرس میں فرانسیسی قومی اسمبلی کے کئی تاریخ ساز فیصلوں کی محرک Somine Veil جب شٹراس برگ کی یورپی پارلیمان کی اسپیکر بنیں، تو یورپی خواتین کے حقوق کی جنگ اب کا مقصد بن گیا۔ یورپی پارلیمان کی تاریخ میں یہ اسی فرانسیسی خاتون سیاستدان کی سربراہی میں ہو سکا تھا کہ پارلیمان نے یورپی کمیشن کی طرف سے پیش کردہ بجٹ کو پہلی مرتبہ مسترد کردیا تھا۔

یورپی پارلیمان کے ارکان میں ایسے سیاستدانوں کی کبھی کمی نہی رہی جو ہمیشہ یہ مطالبے کرتے رہے کہ یورپی یونین کا اپنا ایک آئین ہونا چاہیئے۔ انہی میں سے ایک اٹلی سے تعلق رکھنے والے آلتی ایرو سپی نَیلی بھی تھے جنہوں نے یورپی آئین کے حق میں 1984 سے ہی جیسے ایک باقاعدہ مہم شروع کردی تھی۔


فیڈریشن قائم کرنے کا مطالبہ:

آلتی ایرو سپی نَیلی اُن اولین یورپی پارلیمانی ارکان میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اس ایوان سے مطالبہ کیا تھا کہ اس پارلیمان کو اپنی تاریخ کا سب سے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے یورپی ریاستوں کی ایک فیڈریشن کے قیام کی منظوری دینا چاہیئے۔ سن 1984 میں ہی دائیں بازو کے انتہا پسند سیاستدان بھی دس سال کے لئے اس پارلیمان کے رکن منتخب ہوگئے جبکہ کمیونسٹوں کو بھی اس ادارے میں گذشتہ تین عشروں سے نمائندگی حاصل ہے۔ دوسری طرف ایسے ارکان کی تعداد بھی سن 1994 سے مسلسل زیادہ ہو رہی ہے جو یورپی معاملات کے بارے میں قدرے قنوطیت پسندی کا اظہار کرتے ہیں۔

Europawahl: Hans-Gert Pöttering, CDU
یورپی پارلیمان کے جرمنی سے تعلق رکھنے والے موجودہ اسپیکر Hans-Gert Pötteringتصویر: picture-alliance / dpa

یورپی پارلیمان کے جرمنی سے تعلق رکھنے والے موجودہ اسپیکر Hans-Gert Pöttering کہتے ہیں کہ ماضی کو دیکھا جائے تو یورپی پارلیمان اب تک ایک طویل فاصلہ طے کرچکی ہے۔ ان کے مطابق "یورپی پارلیمان نے اپنے انتخاب کے بعد پہلے دن سے ہی اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 1979 میں اس ادارے کو قانون سازی سے متعلق کوئی اختیارات حاصل نہیں تھے۔ آج اس ادارے کو قانون سازی سے متعلق جو اختیارات حاصل ہیں، وہ ہم نے ایک کے بعد ایک معاہدے کی صورت میں کئی سالہ جدوجہد کے بعد حاصل کئے ہیں۔ اس طرح ہم ایمسٹرڈیم اور ماسٹرشٹ کے معاہدوں تک پہنچے۔"

یورپی پارلیمان کو قانونی سازی کے عمل میں یورپی کمیشن کے ساتھ ملک کر فیصلے کرنے کا اختیار پہلی مرتبہ سن 1987میں حاصل ہوا تھا۔ آج یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں قومی حکومتوں کے نمائندوں اور یورپی پارلیمان کے ارکان کا کل واقعات میں سے دو تہائی میں ایک دوسرے سے متفق ہونا لازمی ہوتا ہے، ورنہ کوئی نیا یورپی قانون منظور ہو ہی نہیں سکتا۔ شٹراس برگ کے اس پارلیمانی ا دارے کو یہ اختیار ابھی بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے طور پر کوئی مسودہ قانون ایوان میں پیش کرے یا یورپی یا قومی سطح پر کسی حکومت کو منتخب کرے۔ تاہم اب اس ادارے کو اتنے اختیارات بہرحال حاصل ہو چکے ہیں کہ وہ یورپی یونین کے کمیشن کو برطرف کرسکتا ہے۔ ایسی ایک کوشش سن 1999 میں اُس وقت دیکھنے میں بھی آئی تھی جب یورپی پارلیمان نے عدم اعتماد کی ایک تحریک کے ذریعے یورپی کمیشن کے صدر یآک سانتیر کو اُن کے عہدے سے علیحدہ کرنے کی کاوش کی تھی۔

یورپی پارلیمان کے جرمنی ہی سے تعلق رکھنے والے ایک سابقہ اسپیکرکلاؤس ہَینش کہتے ہیں کہ یورپی قوموں کے نمائندہ ادارے کے طور پر یورپی پارلیمان واقعی ایک طاقتور اور با اختیار ادارہ بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ یقین نہیں ہونا چاہیئے کہ یورپی پارلیمان کو بھی وہی اختیارات حاصل ہیں جو کہ یونین کے رکن ملکوں میں قومی پارلیمانی اداروں کو لازمی طور پر حاصل ہوتے ہیں۔ یہ ایک بین الاقوامی پارلیمانی ادارہ ہے، ایک مضبوط یونین کا پارلیمانی بازو۔اسی لئے یورپی سطح پر کسی قومی پارلیمانی ادارے کی نقل ہو بھی نہیں سکتے۔"


یورپی پارلیمان کی اہمیت:

شروع میں نہ تو یورپی یونین کے رکن ملکوں کے مابین اتنا زیادہ قریبی تعاون دیکھنے میں آتا تھا جتنا کہ آج، اور نہ ہی یورپی پارلیمان کو وہ اختیارات حاصل تھے جو کہ اب معمول کی، لیکن لازمی سی بات سمجھے جاتے ہیں۔ مسلسل متحد ہوتے ہوئے یورپ میں اب اکثر سماجی اور سیاسی امور پر بحث یورپی تناظر میں کی جاتی ہے۔ اسی لئے آنے والے سالوں میں یورپی پارلیمان کو نہ صرف مزید اختیارات ملنے کا قوی امکان ہے بلکہ یورپی یونین میں، جو عالمی سطح پر اب 27 ملکوں پر مشتمل ایک طاقتور سیاسی اور اقتصادی بلاک بن چکا ہے، یورپی کمیشن کے ساتھ ساتھ یورپی پارلیمانی فیصلے بھی یورپی شہریوں کی روزمرہ کی زندگی پر زیادہ سے زیادہ اثر انداز ہونے لگیں گے۔

Deutschland EU Wahlen zu Europaparlament Plakat
تصویر: AP

یورپی پارلیمان پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد منتخب ادارہ ہے۔ اس کے ارکان کی موجودہ تعداد 784 بنتی ہے، ان کا تعلق 27 مختلف ملکوں سے ہوتا ہے، اور یورپی پارلیمان کی سرکاری زبانوں کی تعداد 23 ہے۔ یورپی پارلیمان کا ایوان اور بہت سے مرکزی دفاتر فرانس کے شہر شٹراس برگ میں قائم ہیں مگر کبھی کبھی اس کا اجلاس برسلز میں بھی ہوتا ہے جہاں یورپی یونین کا ہیڈکوارٹر بھی ہے۔

یورپی پارلیمان میں رکن ملکوں کی درجنوں سیاسی جماعتوں کو نمائندگی حاصل ہے اور اس میں ارکان کی سیاسی سوچ کی نمائندگی کرنے والے کم ازکم آٹھ پارلیمانی حزب قائم ہیں۔ ان میں سے دو سب سے بڑے حزب قدامت پسندوں کے کرسئچن ڈیموکریٹک ارکان اور سوشل ڈیموکریٹک ممبران پر مشتمل ہیں۔ برسلز میں یورپی پارلیمان کے بارے میں تحقیق کرنے والے ایک سرکردہ ادارے، یورپی سیاسی مرکز کی ایک خاتون ماہر جیکی ڈیوِس کہتی ہیں کہ ورپی پارلیمان ایک ایسا ادارہ ہے جس کی کارکردگی کا باہر سے اچھی طرح اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ اسی لئے بہت سے یورپی شہری اس ادارے کی اہمیت سے پوری طرح واقف نہیں ہیں، لیکن یہ ایک بہت بااثر ادارہ ہے۔