1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی خواتین دائیں بازو کی طرف مردوں کی نسبت زيادہ مائل

30 اگست 2018

یورپ میں دائیں بازو سے متعلق پاپولسٹ افراد سے مراد عموماﹰ سفید النسل ناراض مظاہرین ہی لی جاتی ہے۔ تاہم ایک ریسرچ کے مطابق اب خواتین کی بڑی تعداد اس جانب رُخ کر رہی ہے اور انہیں مردوں سے زیادہ انتہا پسند پایا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/342RU
Pulse of Europe - Demonstration Berlin
تصویر: Getty Images/S. Gallup

جرمن شہر کیمنٹز میں حال ہی میں مہاجرین اور غیر ملکیوں کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد نے مظاہرے کیے۔ ان میں زیادہ تر تو مرد حضرات ہی تھے لیکن خواتین کی شمولیت بھی دیکھنے میں آئی۔

جرمنی میں یہ ایک عمومی خیال ہے کہ اسلام مخالف تحريک پیگیڈا اور مہاجرین و اسلام مخالف سیاسی جماعت اے ايف ڈی کے ارکان کو ہمیشہ ناراض یورپی مردوں سے ہی جوڑا جاتا ہے۔ لیکن جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک جماعت سے منسلک فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کی رُو سے یہ بات درست نہیں۔

اس رپورٹ میں فرانس، ہنگری، جرمنی، یونان، پولینڈ اور سویڈن میں پاپولسٹ ووٹروں کا جائزہ لیا گیا ہے جس سے پتہ چلا ہے کہ خواتین کا رجحان رائٹ ونگ کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

دائیں بازو کی جماعتیں خواتین میں مقبولیت کیوں حاصل کر رہی ہیں؟

یورپی رائٹ ونگ جماعتیں نسائیت کی پرانی تصویر پیش کرتی ہیں۔ اس کے باوجود سن 2017 کے جرمن پارلیمانی انتخابات میں مشرقی ریاستوں میں سترہ فیصد خواتین نے دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کو ووٹ دیا جبکہ اسی طرح مغربی حصے میں آٹھ فیصد خواتین اس مہاجرین مخالف جماعت کی ووٹر بنیں۔

Berlin AfD-Demonstration
تصویر: Getty Images/C. Koall

کیا وجہ ہے کہ یہ جماعتیں خواتین میں مقبولیت حاصل کر رہی ہیں؟

ایف ای ایس کے جائزے کی تدوین کرنے والی ایلیزا گوٹشے کا کہنا ہے کہ اس پسندیدگی کا پس منظر ان جماعتوں کی جانب سے ملک میں سماجی بہبود کے نظام کو مستحکم کرنے کا وعدہ ہے۔ ایلیزا کے مطابق،’’ ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں وہ بچوں کی بہبود کی مد میں دی جانے والی رقوم میں اضافہ کریں گی اور خاندانوں کی بہتری کے لیے الاؤنس بھی دیے جائیں گے۔‘‘

اے ایف ڈی، جرمن حکومت کے مہاجرین کے لیے خیر مقدمانہ پالیسی کے مقابلے میں ’بچوں کو خوش آمدید‘ کہنے کی پالیسی کی حامی ہے۔ در حقیقت بیشتر خواتین نے اس خدشے کے تحت دائیں بازو کی جماعتوں کے ووٹ بینک میں اضافہ کیا ہے کہ اگر مستقبل میں جرمنی کا پينشن نظام منہدم ہو گیا تو کیا ہو گا۔

حیران کن طور پر اجانب دشمن نظریات

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یورپی خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ اسلام اور مہاجرین مخالف عقائد کی حامل ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے ایلیزا گوٹشے کا کہنا ہے،’’ میرے خیال میں خواتین کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کا کمتر حصہ ہیں۔ اسی لیے انہیں مہاجرین اور تارکین وطن کے خلاف مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔‘‘

ص ح / ع س /  نیوز ایجنسی