1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبیلجیم

یورپی اور افریقی یونین کی سمٹ، کیا دراڑیں ختم ہو سکیں گی؟

17 فروری 2022

یورپی یونین اور افریقن یونین کے درمیان آخری سربراہی ملاقات کے چار برس بعد دونوں براعظموں کے رہنما آج 17 فروری کو برسلز میں مل رہے ہیں۔ اس دو روزہ سربراہی ملاقات میں بہت سے معاملات پر بات چیت متوقع ہے۔

https://p.dw.com/p/479wN
Senegal Ursula von der Leyen und Präsident Macky Sall
تصویر: Christophe Licoppe/EU-Kommission/picture alliance

یورپین کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈیر لائن کچھ بھی غیر یقینی چھوڑنا نہیں چاہتیں۔ افریقی اور یورپی یونین کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی اس ملاقات سے چند روز قبل وہ ڈاکار گئیں تاکہ سینیگال کے صدر اور افریقن یونین کے موجودہ سربراہ ماکی سَل کو وہ ذاتی طور پر صورتحال کے بارے میں آگاہ کر سکیں۔

ماکی سل سے ملاقات کے بعد ارزولا فان ڈیر لائن کا کہنا تھا، ''ہماری دونوں یونینز استحکام اور ترقی کے مشترکہ معاملے پر یکساں تصور رکھتی ہیں۔ اس سربراہی ملاقات کو اس کے حصول کے لیے ٹھوس طریقہ کار کو یقینی بنانا چاہیے۔‘‘

فان ڈیر لائن کا مزید کہنا تھا کہ یورپی یونین آئندہ برسوں کے دوران افریقی انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے 150 بلین یورو کی رقم فراہم کرے گی۔

یورپی یونین چاہتی ہے کہ یہ سربراہی ملاقات کامیاب رہے کیونکہ یورپ کے افریقی ممالک کے ساتھ تعلقات گزشتہ کئی برسوں سے سرد مہری کا شکار ہیں۔

یہ سربراہی ملاقات سال 2020ء میں ہونا تھی مگر اس کو مؤخر کر دیا گیا تھا اور اس کی وجہ کورونا کی وبا بتائی گئی تھی تاہم مبصرین کے خیال میں اس کی دیگر وجوہات تھیں۔ جرمن ڈیویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے نیلز کائیجزر کے بقول، ''یہ ایک سیاسی اشارہ بھی تھا۔‘‘

EU-Kommissionspräsidentin besucht Senegal
افریقی یونین ویکیسنز تک بہتر رسائی اور یورپی یونین اور افریقی یونین کے درمیان پارٹنر شپ کا بہتر خاکہ بھی چاہتی ہے۔تصویر: Christophe Licoppe/EU-Kommission/dpa/picture alliance

'نوآبادیاتی ماڈل‘ اور 'ویکسین اپارتھائیڈ‘

یہ اشارہ اصل میں افریقہ کی جانب سے تھا، جس کی وجہ یورپ کے اس ہمسایہ براعظم کی بڑھتی ہوئی رنجشیں تھیں۔

کیپ ٹاؤن یونیورسٹی سے منسلک معیشت دان کارلوس لوپیس نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں اس کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کہا، ''ہم ابھی تک ایک نوآبادیاتی ماڈل میں زندگی گزار رہے ہیں، جس میں افریقی محض ایسی اشیا کے برآمد کنندہ ہیں، جنہیں بہتر نہیں بنایا گیا ہوتا۔ بہت زیادہ مایوسی موجود ہے، جو افریقہ کو نئی پارٹنر شپ تلاش کرنے پر مجبور کرتی ہے، جو اس براعظم کو صنعت کاری کی طرف لے جانے میں مدد کر سکے۔‘‘

''یقیناﹰ ہمارے درمیان اختلافات موجود ہیں‘‘، پولیٹیکو نامی ویب سائٹ نے یہ بات افریقی یونین کمیشن کے سربراہ موسیٰ فاکی کے حوالے سے لکھی، جو انہوں نے 2020ء میں اپنی یورپی ہم منصب اُرزولا فان ڈیر لائن سے ملاقات کے بعد کی کہی تھی۔

فاکی نے اختلافات کی اس فہرست میں انٹرنیشنل کرمنل جسٹس سے لے کر سزائے موت اور افریقی مسائل کے حل میں افریقی یونین کے کردار تک کے معاملات کا ذکر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کووڈ انیس کی وبا نے صورتحال کو مزید کشیدہ کیا۔ بہت سے افریقی رہنماؤں نے اپنے ملکوں میں ویکسینیشن کا عمل شروع کرنے کے لیے مناسب مقدار میں ویکسین کی عدم دستیابی پر بھی غم وغصے کا اظہار کیا جبکہ یورپ میں بوسٹر ڈوز لگائے جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جنوبی افریقہ کے صدر سرل رامافوسا نے اسے 'ویکسین اپارتھائیڈ‘ یعنی ویکسین کے حوالے سے نسلی امتیاز کا نام دیا۔

افریقہ یونین اپنی بات کی اہمیت چاہتی ہے

افریقہ برسلز کے بہت سے نئے منصوبوں پر زیادہ خوش نہیں ہے۔ کیپ ٹاؤن یونیورسٹی سے منسلک معیشت دان کارلوس لوپیس کے مطابق، ''یورپی یونین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی تیار اور شائع کرے۔ جس بات پر ہمیں افسوس ہے وہ یہ ہے کہ اعلانات سے قبل بہت کم مشاورت ہوئی۔ اور پھر ان اعلانات پر عملدرآمد اکثر توقعات سے کہیں کم ہوتا ہے۔‘‘

افریقہ میں چین کی سرمایہ کاری، ترقی یا استحصال

مگر یہ مسائل شاید ہی اس سربراہی ملاقات میں باقاعدہ طور پر کوئی کردار ادا کریں۔ جرمن ڈیویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے نیلز کائیجزر کے بقول، ''2007ء میں ہونے والی بات چیت کے بعد سے یورپی یونین نے اکنامک پارٹنر شپ ایگریمنٹس سمیت متنازعہ معاملات کو سربراہی اجلاس کے ایجنڈا سے باہر ہی رکھا ہے۔ وہ نئی حکمت عملیوں اور پیش قدمیوں پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

پھر بھی آج 17 فروری سے برسلز میں شروع ہونے والی دو روزہ سربراہی ملاقات کچھ نہ کچھ مسائل کو حل کرنے میں مدد کرے گی۔ جیسے ویکسین کا مسئلہ۔ لوپیس کا خیال ہے، ''افریقہ کے مفادات میں ویکیسن کی تیاری کا معاہدہ بھی شامل ہے، اس کے علاوہ ویکیسنز تک بہتر رسائی اور یورپی یونین اور افریقی یونین کے درمیان پارٹنر شپ کا بہتر خاکہ بھی۔ اور ابھی تک میں سمجھتا ہوں کہ ان چیزوں پر پیشرفت ہو گی۔‘‘

یورپی یونین البتہ افریقہ کے ساتھ مل کر 2030ء کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا چاہتی ہے۔ لیکن افریقی پارٹنر بھی ایسا چاہتے ہیں یہ بات ابھی جواب طلب ہے۔

یہ تجزیہ ابتدائی طور پر جرمن زبان میں لکھا گیا۔

ڈینیل پیلز (ا ب ا/ا ا)