1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یورپ کو خطرہ جرمنی کی ’اقتصادی قوت‘ سے ہے‘

20 نومبر 2018

تاریخ دان اندریاس رؤڈر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ یورپی ممالک جرمنی کی عسکری طاقت سے نہیں بلکہ زبردست اقتصادی قوت سے خائف ہیں، جب کہ جرمنی یورپ کی قیادت بھی چاہتا ہے۔

https://p.dw.com/p/38aF4
Andreas Rödder, Universität Mainz
تصویر: DW

سابق پولستانی وزیرخارجہ داڈوسلاو سکرورسکی نے کہا تھا، ’’میں جرمنی کی طاقت سے نہیں بلکہ اس کی غیرفعالیت سے خوف زدہ ہوں۔‘‘

جرمن تاریخ دان اور مائنز یونیورسٹی سے وابستہ  انڈریاس رؤڈر کے مطابق جرمنی کے بارے میں یورپ میں سن 1990 سے قبل کبھی نہیں سنا گیا تھا، خصوصاﹰ پولینڈ کی جانب سے کبھی نہیں۔

جرمنی:  کم از کم اجرت کو یقینی بنانے کے لیے چھاپے

یورپ خود کو امریکا کی ’موازن قوت‘ بنائے، جرمنی کا اصرار

رؤڈر کے مطابق پولینڈ میں اب پی آئی ایس پارٹی کی حکومت ہے، جب کہ ان دنوں وارسا حکومت کی جانب سے بالکل مختلف طرز کے بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ ’’جرمنی اور اس کے مشرقی یورپی ہمسایہ ممالک اب بھی جرمنی سے متعلق پرانے خدشات کا بدستور شکار دکھائی دیتے ہیں۔ جرمنی کے بارے میں یورپ میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر یورپ میں اپنی برتری چاہتا ہے۔‘‘

رؤڈر کے مطابق جرمنی کو ہر حال میں یورپی اداروں اور دیگر یورپی اقوام کے ساتھ مل کر فیصلے کرنا چاہئیں، ’’بندکمروں کی سیاست اور فیصلوں کی بجائے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے دیگر یورپی ریاستوں کے ساتھ مل کے معاملات طے کرے۔‘‘

رؤڈر نے سن 2015ء میں یورپی کونسل آف منسٹرز کے فیصلے کے حوالے سے کہا، ’’جرمنی نے مہاجرین کے بحران کے حوالے سے سنجیدہ نوعیت کی غلطی کی۔ جرمنی نے اپنا موقف دوسرے ممالک پر نافذ کرنے کی کوشش کی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ جرمنی میں ایک خاص طرح کا ثقافتی برتری کا رویہ پایا جاتا ہے، جو یورپ کے لیے موزوں نہیں۔ ایک تازہ جائزے میں مختلف یورپی ممالک کے باشندوں سے یہ دریافت کیا گیا تھا کہ آیا ان کی قومی ثقافت ہمسایہ یورپی ممالک سے زیادہ بہتر ہے۔ اس سروے میں 46 فیصد جرمن باشندوں نے ہاں میں جواب دیا جب کہ فرانس میں یہ شرح صرف 23 فیصد تھی۔

ایمسٹرڈم میں مہاجرین کو ملازمتيں فراہم کرنے کا دلچسپ طريقہ

رؤڈر کے مطابق جرمنی انیسویں صدی میں مختلف ریاستوں میں بٹا ہوا تھا اور اس ایک قوم کا تصور جرمنوں کے لیے نیا ہے۔ ’’جب انیسویں صدی میں مختلف یورپی معاشرے، قومیں بن رہے تھے، فرانس ایک مستحکم ریاست بن چکا تھا۔ تاہم 1806 میں ہولی رومن سلطنت کے خاتمے کے بعد جرمن مختلف چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹے ہوئے تھے، جو بو روسیا اور آسٹریا کے تسلط میں تھیں۔ قوم کا تصور جرمنوں کے لیے نیا ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے خود سے ہی ایک ثقافتی قوم کا تصور خیالیہ قائم کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں دیگر ثقافتوں کے مقابلے میں برتری کا تصور نسبتاﹰ زیادہ مضبوط ہے۔‘‘

ژان ڈی والٹر، کیتھرینے مارٹنز، ع ت، ص ح