یمن میں قومی اتحادی حکومت کے قیام کا اعلان
8 دسمبر 2011قومی اتحادی حکومت کی تشکیل دراصل احتجاجی مظاہرے ختم کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے، جو گزشتہ کئی ماہ سے یمن کے صدر علی عبداللہ صالح کے اقتدار کے خلاف جاری ہیں۔
نائب صدر کے اعلان کے مطابق 34 رکنی کابینہ میں صدر صالح کی جماعت اور اپوزیشن پارٹی کے ارکان کو شامل کیا گیا ہے۔ سربراہ حکومت سابق وزیرخارجہ محمد باسندوہ ہوں گے۔
نئی کابینہ میں تین خواتین بھی شامل ہیں۔ انتقال اقتدار کے تناظر میں عبوری حکومت کی تشکیل کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے، جو آئندہ برس فروری میں صدر صالح کے مستعفی ہونے تک ذمہ داریاں نبھائے گی۔ صدارتی انتخابات اکیس فروری کو ہوں گے۔
یمن میں انتقالِ اقتدار کے معاہدے کے لیے خلیجی ممالک نے ثالثی کی تھی اور اس پر گزشتہ ماہ سعودی عرب میں دستخط کیے گئے تھے۔ اس معاہدے کے تحت صالح کی جنرل پیپلز کانگریس (جی پی سی) پارٹی اپنے مخالفین کے ساتھ کابینہ کے عہدوں کی شراکت پر تیار ہے، جو اتحادی حکومت کے تحت عمل میں آنا تھی اور اس کی قیادت ایک اپوزیشن رہنما کو ملنی تھی۔
ہہی وجہ ہے کہ محمد باسندوہ کو اپوزیشن پارٹیوں نے ہی نامزد کیا ہے۔ وزارتِ دفاع اور خارجہ کے قلمدان جی پی سی کے پاس ہی رہیں گے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کو وزارتِ داخلہ اور خزانہ کے قلمدان دیے گئے ہیں۔
باسندوہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ حلف برداری ہفتے کے روز ہو گی۔
انتخابات کی تیاری کے علاوہ بھی قومی اتحادی حکومت کو متعدد چیلنجز کا سامنا رہے گا، جن میں سکیورٹی کی بحالی، دس ماہ کے مظاہروں سے متاثر ہونے والی اہم عوامی سہولتوں کی بحالی اور ملک کے جنوبی علاقوں میں علیحدگی پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانا شامل ہے۔
اُدھر حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق بدھ کو صنعاء میں سکیورٹی فورسز اور حکومت مخالف قبائل کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔ صالح کے ایک مخالف قبائلی رہنما کا کہنا ہے کہ اس لڑائی میں ایک شخص ہلاک اور درجن بھر سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق