1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن: ’حالات خوفناک، لوگوں کو کسی طرح زندہ رکھنے کی کوشش‘

امتیاز احمد18 مئی 2016

اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لیے ایک اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی امداد کی اپیل کی گئی تھی لیکن اس کا صرف سولہ فیصد حصہ ملا ہے۔ یمن کے تقریباﹰ 76 لاکھ شہری بھوک کے خطرے سے دو چار ہے۔

https://p.dw.com/p/1IpxN
Anja Niedrighaus Preis 2016, Foto von Adriane Ohanesian
تصویر: A. Ohanesian

گزشتہ برس مارچ میں سعودی اتحاد نے یمن پر فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان حملوں کا مقصد ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں اور یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کے مسلح حامیوں کو یمن پر مکمل قبضے سے روکنا تھا۔ ابھی تک اس لڑائی میں چھ ہزار دو سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں سے نصف تعداد عام شہریوں کی ہے۔

اقوام متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کے ڈائریکٹر جان گِینگ کا نیویارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بنیادی طبی خدمات کے حوالے سے یمن کے دس ملین شہریوں کا انحصار بین الاقوامی امداد پر ہے۔

انہوں نے مزید بتایا، ’’بنیادی انسانی بنیادوں پر امداد اور ڈونر فنڈنگ کے لحاظ سے گزشتہ چند ماہ کے دوران ہم نے حیران کن کمی دیکھی ہے۔‘‘ گنگ کا کہنا تھا کہ وہ بین الاقوامی برادری سے صرف اتنی امداد مانگ رہے ہیں، جس سے ان مشکل حالات میں لوگوں کو زندہ رکھا جا سکے۔

Äthiopien äthiopische Flüchtlinge Rückkehrer im Addis Ababa IOM Transit Center
تصویر: IOM Ethiopia

یمن کے دورے سے واپس امریکا پہنچنے والے اقوام متحدہ کے اس عہدیدار کا کہنا تھا کہ سن دو ہزار سولہ میں جن ڈونر ممالک نے امداد دینے کا وعدہ کیا تھا، ان میں امریکا، برطانیہ، یورپی کمیشن اور جاپان بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کی یمنی اس احساس میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ دنیا نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔

کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کے لحاظ سے یمن کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے لیکن ملک میں جاری لڑائی کی وجہ سے اس ملک میں تجارتی جہازوں کی آمد ورفت نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک کی اسی فیصد آبادی کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔

رواں ماہ کے آغاز پر اقوام متحدہ نے اعلان کیا تھا کہ حوثی باغیوں کے زیر کنٹرول بندرگاہوں پر تجارتی جہازوں کی چیکنگ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے تاکہ تجارتی درآمدات میں اضافہ ہو سکے اور باغیوں کو ہتھیاروں کی ممکنہ ترسیل روکی جا سکے۔

نگرانی کے اس عمل کو نافذ العمل بنانے اور آٹھ ملین جمع کرنے کے لی بین لاقوامی برادری کو آٹھ ماہ لگے ہیں۔ گِنگ کے مطابق یہ طریقہ کام کر رہا ہے لیکن اس کے مثبت نتائج سامنے آنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔