1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا‘

رفعت سعید، کراچی13 جولائی 2015

جس نے غربت دیکھ رکھی ہو، اس کے لیے مشکلات کوئی اہمیت نہیں رکھتیں اور یہی وجہ ہے کہ سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کو اُن کا کام کبھی مشکل نہیں لگا۔ ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’مشکلات آئیں مگر پھر گزر گئیں۔‘‘

https://p.dw.com/p/1FvWi
تصویر: DW/U. Fatima

عبدالستار ایدھی کہتے ہیں کہ یہ مشکلات کئی قسم کی رہی ہیں۔ فلاحی کاموں کی نصف صدی کے دوران اُنہیں کئی مخالفین سے بھی واسطہ پڑا۔ وہ کہتے ہیں کہ کئی مرتبہ کام کی نوعیت ایسی ہوتی تھی کہ لگتا تھا کہ ہو ہی نہیں پائے گا۔ ایدھی کے مطابق پاکستان جیسے ملک میں نیکی کرنا ویسے بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کے دوران نہ چاہتے ہوئے بھی ایدھی اپنی ان مشکلات کا ذکر کر بیٹھے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی کی دل آزادی ان کا مقصد نہیں لیکن حقیقت بدلی نہیں جا سکتی، اسے کیسے جھٹلایا جائے:’’جب میں شروع شروع میں کام کرتا تھا تو سیٹھ لوگ میرے بہت بڑے مخالف تھے۔ جو بھی لوگ میری مدد کو آتے، ان کو یہ کہا جاتا کہ ایسے آدمی کا کیا بھروسہ، جو خود دوسروں کے ٹکڑوں پر پڑا ہے۔‘‘ مگر پھر ایدھی نے اعلان کر دیا کہ جس کو ان پر بھروسہ نہیں، وہ اپنی عطیے کی رقم واپس لے لے۔ اس سے زیادہ بھروسے کے قابل بات بھلا اور کیا ہو سکتی ہے۔
ایدھی کی تاریخ 1958ء کے مارشل لاء سے تو شروع تو نہیں ہوتی لیکن یہ سال ان کے لیےنہایت اہم رہا ہے۔ اُس سال جہاں ایک طرف فوجی آمریت کے آنے سے بقول ایدھی غریب آدمی کی طرف حکمرانوں کی توجہ کم ہو گئی، وہیں دوسری طرف ان کے والد کے انتقال کے نتیجے میں ان کے پاس ایک خطیر رقم بھی آ گئی تھی۔ تب تک انہوں نے زندگی جیسے تیسے بڑی تکلیفوں میں گزاری تھی اور ہر چند کہ اس کسمپرسی میں بھی انہوں نے خدمت خلق جاری رکھی تھی لیکن جب بقول ان کے وہ اچانک لکھ پتی ہو گئے تو انہوں نے اپنی تمام پونجی بازارِ حصص میں لگا دی۔ اُس سے حاصل ہونے والا سالانہ نفع ان کی ذاتی زندگی کے لیے بہت تھا۔ اس وقت تک وہ تھے بھی اکیلے۔
یوں اُس سال سے ستّار ایدھی نے اپنی آئندہ زندگی کو لوگوں کے لیے مکمل طور پر وقف کر دیا۔ اس وقت سے اب تک ہر سال وہ رمضان کے مہینے میں اپنے بھیک مشن پر نکلتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ آگے بڑھ کر ان کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر کچھ نہ کچھ ضرور رکھتے ہیں۔ اس سال بھی، شدید بیماری کی حالت میں بھی، وہ اس مشن پر نکلے ہیں۔ ان کے کارکن انہیں وھیل چیئر پر بٹھا کر بازاروں گلی کوچوں میں لے آتے ہیں، جہاں وہ لوگوں سے چندے کی اپیل کرتے ہیں:’’لوگ اس مشن کو پسند کرتے ہیں اور رقم بھی زیادہ سے زیادہ دیتے ہیں‘‘، انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

Abdul Sattar Edhi Local Heroes
تصویر: Edhi Centre
Abdul Sattar Edhi Local Heroes
تصویر: Edhi Centre

کارکنوں کا نظام ہمیشہ سے ان کے ساتھ تھا۔ وہ کہتے ہیں:’’پہلے میں اکیلا تھا۔ لیکن بس میں چلتا رہا اور قافلہ بنتا گیا۔‘‘ اسی قافلے میں ان کے ساتھ رفیقِ سفر رہنے والوں میں سب سے اہم شخصیت اُن کی اہلیہ بلقیس ایدھی کی ہے۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ جب بلقیس پہلی مرتبہ ان کے پاس کام کرنے آئیں تو وہ محض 16سال کی ایک لڑکی تھیں، جو کام کرنا چاہتی تھیں:’’میں نے ایسے ہی ایک دن پوچھا کہ کیا تم ہمیشہ میرے ساتھ کام کرو گی تو بولیں، ’ہاں‘۔ ’’بس شاید اسی دن میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں اسی لڑکی سے شادی کروں گا‘‘، وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
یاد ماضی سے اور بھی کئی خوبصورت لوگ نکلتے ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ انہیں خوبصورتی پسند ہے۔ مگر پھر ان کا کام محض خوبصورتیوں کے ساتھ نہیں۔ جب ایدھی کا کام میٹھا در تک محیط تھا، تب ہی انہوں نے سمندر اور گٹروں سے نکلی ہوئی لاشوں کو غسل دینا اور کفنانے دفنانے کا کام شروع کر دیا تھا۔
علاقے کے شرفاء کہتے تھے کہ تم نے پورے علاقے کو بدبودار کر دیا ہے۔ ایدھی کہتے تھے کہ متعفن تو وہ معاشرہ ہے، جو یہ دیکھ ہی نہیں سکتا کہ لوگ مر رہے ہیں۔

پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ ستّار ایدھی نے فلسطین جا کر اسرائیلی فوج کی پابندیوں کے باوجود غزہ میں لوگوں کی خدمت کی۔ جب اسرائیلی فوج نے ان کو روکا تو انہوں نے وہ امریکی رسالے دکھائے، جن میں ان کے انٹرویو چھپے تھے۔ اب اگر امریکی کسی کی تعریف کر رہے تھے تو اسرائیلیوں کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔

2005ء کے زلزلے میں بھی ایدھی کا کام امدادی سرگرمیوں میں سر فہرست تھا۔ ہر کسی نے اعتراف کیا کہ جتنا کام ستّار ایدھی کے کارکنوں نے کیا، کسی اور نے نہیں کیا۔ نہ حکومتِ پاکستان نے، نہ پاک فوج نے، نہ ہی کسی اقوامِ متحدہ کے ادارے نے۔ ’’بڑا چیلنج تھا‘‘، ایدھی بتاتے ہیں۔

ملک بھر میں سیلاب اور بلوچستان میں پے در پے زلزلوں جیسے کئی چیلنجوں کا ایدھی نے سامنا کیا۔ پچھلے دنوں کراچی میں گرمی سے مرنے والوں کی لاشیں اٹھاتے ہوئے البتہ انہوں نے کہا کہ ’اتنی لاشیں‘ انہوں نے کبھی نہیں اٹھائیں۔
اپنے کام سے ہٹ کر اُنہیں سب سے بڑی مشکل کا سامنا اُس وقت کرنا پڑا، جب ان سے کہا گیا کہ مقتدر حلقوں کے ساتھ مل کر سیاست میں آ جائیں۔ اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو گئے۔ لیکن بھلا ستّار ایدھی پر کون دباﺅ ڈال سکتا ہے۔ میڈیا میں شور مچ گیا اور ایدھی اس پلان سے باہر آ گئے۔
ایدھی کے ناقدین بہت ہیں۔ لیکن یہ بات آج بھی ہر کوئی مانے گا کہ جو کام ستّار ایدھی کرتے ہیں، وہ پاکستان میں اور کوئی نہیں کرتا۔ اتنی انتھک لگن کسی میں نہیں کہ ستّر برس تک معاشرے کی اتنی خدمت کرے کہ بلا معاوضہ کام کرنے کو اب عام زبان میں ایدھی گیری کہا جاتا ہے۔

Abdul Sattar Edhi Local Heroes
تصویر: Edhi Centre

آج 80 کے پیٹے میں پہنچ کر بھی ایدھی نے کام نہیں چھوڑا ہے، ہر چند کہ انہیں ہفتے میں تین مرتبہ ڈائلیسس سے گزرنا پڑتا ہے۔’’لوگ ابھی زندہ ہیں، لوگ مرے نہیں، بس انہیں زندہ کرنے والا ہونا چاہیے‘‘، وہ بڑے اطمینان سے کہتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ان کے بعد ان کے کام کو ان کا بیٹا فیصل جاری رکھے گا، جو ابھی سے ایدھی فاﺅنڈیشن کی ذمے داریاں سنبھال چکا ہے۔ اور ستّار ایدھی؟ ستّار ایدھی صرف بیمار ہوا ہے۔ ستّار ایدھی مرا نہیں ہے۔