1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہیڈ اسکارف والی ٹیچر کو ’پرائمری سطح پر تدریس سے روکنا جائز‘

9 مئی 2018

جرمنی کی ایک لیبر کورٹ نے حکم سنایا ہے کہ ہیڈ اسکارف پہننے والی کسی مسلمان ٹیچر کے لیے یہ لازمی نہیں کہ متعلقہ صوبائی محکمہ تعلیم انہیں کسی پرائمری اسکول میں تعینات کرتے ہوئے چھوٹے بچوں کو تعلیم دینے کی جازت بھی دے دے۔

https://p.dw.com/p/2xS3V
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene

وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے بدھ نو مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ فیصلہ برلن کی ایک لیبر کورٹ نے سنایا اور اس مقدمے کے فریقین یعنی ٹیچر اور محکمہ تعلیم دونوں کا تعلق جرمنی کے اسی شہر سے تھا، جو وفاقی دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سٹی اسٹیٹ یا شہری ریاست بھی ہے۔

جرمن اسکولوں میں حجاب پر ممکنہ پابندی: مکالمت اہم ہے، ماہرین

اساتذہ کی طرف سے بچیوں کے حجاب پر پابندی کی حمایت

اس مقدمے میں درخواست دہندہ خاتون ٹیچر نے کہا تھا کہ وہ برلن ہی کے کسی پرائمری اسکول میں بچوں کو تعلیم دینا چاہتی ہیں مگر محکمہ تعلیم نے انہیں ان کے خواہش کے برعکس ہائر اسکینڈری سطح کے ایک ووکیشنل اسکول میں تعلیم کی ذمے داریاں سونپ رکھی ہیں۔

اس مسلم خاتون کے مطابق ان کے ساتھ برلن شہر کے صوبائی محکمہ تعلیم کا یہ رویہ عوامی شعبے میں ملازمتوں کے دوران مساوی حقوق کے قانون کے تقاضوں کے منافی تھا اور ساتھ ہی ان کے ساتھ کیے گئے روزگار کے معاہدے کی شقوں کی خلاف ورزی بھی۔

اس پر عدالت نے آج اپنے فیصلے میں، جس کا جرمنی میں بڑی شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا، کہا کہ محکمہ تعلیم کے لیے لازمی نہیں کہ وہ ہیڈ اسکارف پہننے والے کسی خاتون ٹیچر کو لازمی طور پر بچوں کے کسی پرائمری اسکول میں ہی درس و تدریس کے لیے تعینات کرے۔

مسلمان بچوں کے اسکارف لینے پر پابندی کا منصوبہ

انڈونیشیا: آچے میں جہاز کے خواتین عملے پر حجاب کرنا لازم

متعلقہ ٹیچر نے اپنی قانونی درخواست میں یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ان کے ساتھ صوبائی حکام کا یہ رویہ اس وجہ سے بھی غلط ہے کہ وہ ایسا اس مسلم خاتون کے ہیڈ اسکارف کی وجہ سے کر رہے ہیں اور اسی لیے یہ عمل درخواست دہندہ کو مذہبی آزادی کے قانون کے تحت حاصل حقوق کی بھی نفی ہے۔

اس پر برلن کی لیبر کورٹ کے جج نے اپنے فیصلے میں کہا کہ صوبائی محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام کا اس ٹیچر کی پوسٹنگ کے حوالے سے فیصلہ نہ تو پبلک سیکٹر میں دوران ملازمت مساوی حقوق کے صوبائی قانون کے منافی ہے اور نہ ہی مذہبی آزادی کے قانون کی خلاف ورزی۔

ساتھ ہی عدالت نے اس ٹیچر کو یہ حق بھی دیا کہ اگر وہ چاہیں تو مقامی لیبر کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف برلن کی صوبائی لیبر کورٹ میں اپیل بھی دائر کر سکتی ہیں۔ عدالت کے مطابق یہ بات دراصل صوبے میں سرکاری ملازمین کے لیے مساوی حقوق کے قانون کے عین مطابق ہے کہ پرائمری اسکولوں میں ہیڈ اسکارف پہننے والی کسی ٹیچر کو تدریس کی اجازت نہ دی جائے۔

جرمنی: مسلمانوں کے خلاف پرتشدد حملوں میں اضافہ

ترک خواتین فوجی افسران کے ہیڈ اسکارف پہننے پر پابندی ختم

اس امر کی عدالت کی طرف سے وضاحت یوں کی گئی کہ صوبائی محکمہ تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ وہ پرائمری اسکولوں کی سطح پر بچوں کے لیے ایسے تعلیمی ماحول کو بھی یقینی بنائے، جس میں تدریسی عمل مذہبی حوالے سے بھی قطعی غیر جانبدار رہے۔

برلن کی رہائشی اور ہیڈ اسکارف پہننے والی اس مسلم خاتون ٹیچر کو اب آئندہ بھی اسی ہائر اسکینڈری سطح کے ووکیشنل اسکول میں اپنے تدریسی فرائض جاری رکھنا پڑیں گے، جہاں وہ اب تک پڑھا رہی ہیں۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ آیا یہ ٹیچر اس فیصلے کے خلاف صوبائی لیبر کورٹ میں کوئی اپیل دائر کریں گی۔

م م / ع ب / اے ایف پی