1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'ہم کشمیر میں انتخابات کے لیے تیار ہیں'، مودی حکومت

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
31 اگست 2023

مودی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں 'اب کسی بھی وقت' انتخابات کے لیے تیار ہے۔ تاہم اس نے کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے سے متعلق کوئی وقت مقرر کرنے سے انکار کر دیا۔

https://p.dw.com/p/4VnIh
Symbolbild Indien Indische Polizisten
تصویر: Faisal Bashir/SOPA Images via ZUMA Press Wire/picture alliance

بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے جمعرات کے روز سپریم کورٹ کو بتایا کہ وہ اپنے زیر انتظام جموں و کشمیر میں اب کسی بھی وقت انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے لیکن اس پر حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن اور ریاستی پولنگ پینل کو کرنا ہے۔

بھارتی کشمیر میں مس ورلڈ مقابلے کے انعقاد کی حقیقت

بھارتی سپریم کورٹ میں گزشتہ کئی روز سے دفعہ 370 کو ختم کرنے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت جاری ہے اور اسی کے تناظر میں حکومت نے عدالت عظمی کے ایک سوال کے جواب میں یہ بات کہی ہے۔

ایل او سی پر عام شہری کی ہلاکت پر پاکستان کا بھارت سے احتجاج

  سپریم کورٹ نے اس معاملے پر منگل کے روز سماعت کے دوران جموں و کشمیر میں جمہوریت کو بحال کرنے اور اس کا ریاستی درجہ بحال کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا اور پوچھا تھا کہ آخر حکومت وہاں کب تک انتخابات کرانے کا ارادہ رکھتی ہے اور کب اس کا ریاستی درجہ بحال کیا جا سکتا ہے۔

بھارت کشمیری انسانی حقوق کے کارکنوں کو رہا کرے، پاکستان

حکومت نے جواب میں کیا کہا؟

جمعرات کی سماعت کے دوران مرکز نے جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے لیے کوئی ٹائم فریم فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ حکومت کے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے پانچ رکنی بینچ کو بتایا کہ ''یونین ٹیریٹری ایک عارضی چیز ہے اور ہمیں کچھ ایسی چیزیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ریاست حقیقی معنوں میں ایک ریاست بن سکے۔''

کشمیر کی خصوصی حثیت کے خاتمے کے خلاف درخواستوں کی سماعت

انہوں نے مزید کہا، ''میں اس کے لیے صحیح ٹائم فریم دینے سے قاصر ہوں کہ یہ عمل کب مکمل ہو گا۔'' مسٹر مہتا نے یہ بھی کہا کہ حکومت کی اعلیٰ سطحی میٹنگ کے بعد 31 اگست تک جموں و کشمیر کی ریاست کی بحالی پر ایک ''مثبت'' بیان آنے کا امکان ہے۔

بھارتی کشمیر: فوج پر مسجد میں مسلمانوں سے جے شری رام کے نعرے لگوانے کا الزام

سپریم کورٹ میں اب تک سماعت کے دوران دلائل کا مرکز یہ رہا ہے کہ آیا دفعہ 370 کو منسوخ کرنے اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو لاقوں میں تقسیم کرنے کے عمل میں قانون کی پیروی کی گئی یا پھر نہیں۔

کشمیر میں بھارتی فوجی مقامی کشمیری لوگوں کی تلاشی لیتے ہوئے
خطہ جموں و کشمیر جون سن 2018 سے ہی بغیر کسی منتخب حکومت کے ہے اور پانچ اگست 2019 میں اس کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے ہی، اس کا انتظام مرکزی حکومت کے متعین کردہ گورنر کے ہاتھ میں ہےتصویر: Mukhtar Khan/AP Photo/picture alliance

سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے پہلے یہ دلیل بھی دی تھی کہ جموں و کشمیر ایک الگ قسم کا معاملہ ہے اور اس کی تقسیم کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ اس خطے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔

خطہ جموں و کشمیر جون سن 2018 سے ہی بغیر کسی منتخب حکومت کے ہے اور پانچ اگست 2019 میں اس کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے ہی، اس کا انتظام مرکزی حکومت کے متعین کردہ گورنر کے ہاتھ میں ہے۔

ریاستی درجہ نہیں، 370 چاہیے

گزشتہ روز ہی ریاست کی ایک سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ریاست کی بھارتی نواز جماعتوں پر مشتمل اتحاد 'پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلیئریشن' جموں و کشمیر کی مکمل ریاست کی بحالی کے بجائے خصوصی حیثیت کی بحالی کے لیے دباؤ ڈالے گا۔

ان کا کہنا تھا، ''اگست 2019 میں جو کچھ بھی ہوا وہ ناقابل قبول ہے۔ آرٹیکل 370، جس نے ریاست کو اس کا خصوصی درجہ دیا تھا، غیر آئینی طور پر ہٹا دیا گیا۔ ہم اس سے کم پر راضی نہیں ہوں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آرٹیکل 370 بحال ہو۔''

انہوں نے مزید کہا، ''ہم بھارتی آئین کے اندر رہتے ہوئے لڑ رہے ہیں، دفعہ 370 بھی اسی کا حصہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ''ہماری خصوصی حیثیت ہمیں بھارتی آئین نے دی تھی، پاکستان، چین یا اقوام متحدہ نے نہیں۔''

کشمیریوں کو ہزاروں میل دور کیوں قید کیا جاتا ہے؟